پاکستانیوں کے مغالطے۔۔۔۔گل نوخیز اختر

ایک دور تھا جب مجھے اپنا آپ سو فیصد ٹھیک سمجھنے کی بیماری تھی۔مجھے لگتا تھا کہ جو کچھ میں سمجھتا ہوں وہی حقیقت ہے اور اس کے علاوہ ہر بندہ غلط ہے۔ پاک ٹی ہاؤس نے اس بیماری کا علاج کرنے میں بڑی مدد کی۔ حلقہ ارباب ذوق کے اجلاسوں میں جب میرے افسانوں کے پرخچے اڑے اور جواباً مجھے دو لفظ بولنے کی اجازت بھی نہ ملی تو آہستہ آہستہ برداشت کا مادہ بڑھنے لگا۔اوپر سے اللہ نے مرشدی یاسر پیرزادہ کی شکل میں ایک رحمت نازل کردی۔انہوں نے میرے ہر اختلاف کو نہ صرف سکون سے سنا بلکہ ایسی ایسی دلیل سے مجھے غلط ثابت کیا کہ کبھی کبھار میرا اپنے بال نوچنے کو جی چاہتا ۔ آپ میں سے اکثریاسر پیرزادہ کو صرف ان کے کالموں کے حوالے سے جانتے ہوں گے۔میں ان کی ذات کے ایک ایک پہلو سے واقف ہوں۔ کوئی دن نہیں گذرتا کہ ہماری ملاقات نہ ہوتی ہو، بحث و مباحثہ نہ ہوتا ہو یا لڑائی نہ ہوتی ہو۔مرشد دو ٹوک دلیل دیتے ہیں اور میری جذباتیت کو ایک منٹ میں اوقات پر لے آتے ہیں۔ بظاہر سخت گیر نظر آنے والے اس بیوروکریٹ کے اندر کتنا بڑا فرشتہ صفت انسان اور کتنی محبت بھری روح چھپی ہوئی ہے یہ ان کے قریبی دوست بخوبی جانتے ہیں۔ایک ایسا بیوروکریٹ جس کے دامن پر کرپشن کا ایک چھوٹا سا داغ بھی نہیں۔ میرے سامنے کی بات ہے۔ان کا ٹرانسفر بطور ممبر ایڈمن سی ڈی اے ہوا تو یہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اسلام آباد نہیں جانا چاہتے تھے، لاہور نہیں چھوڑنا چاہتے تھے سو پہلے ہی دن عرضی ڈال دی کہ مجھے واپس لاہور ٹرانسفر کیا جائے۔ یاد رہے کہ سی ڈی اے میں ممبر ایڈمن کی پوسٹ خزانے کی چابی سمجھی جاتی ہے لیکن مرشد اس سے جان چھڑاتے نظر آئے۔ مجھے ان کی تقرری کے دوران بارہا اسلام آباد جانے کا موقع ملا۔سی ڈی اے کا بے شمار عملہ ان سے نالاں رہا کہ یہ کیسا بندہ آگیا ہے جو نہ خود کچھ کھاتا ہے نہ کسی کو کھانے دیتا ہے۔بہرحال ہم سب دوستوں اورمرشد کی دعائیں رنگ لائیں اور وہ واپس لاہور ٹرانسفر ہوگئے۔جن دنوں وہ اسلام آباد میں تھے، ہر ہفتے مجھے ، اجمل شاہ دین، ناصر ملک اور قمر راٹھور صاحب کو حکم ہوتا تھا کہ جمعے کی شام اسلام آباد پہنچ جائیں اور مجھے اپنی معیت میں واپس لاہور لے کر جائیں۔ہم دوستوں کی پوری بارات ہر جمعہ کی رات اسلام آباد پہنچتی۔ مرشد کی خوشی دیدنی ہوتی۔ ان کی لاہور واپسی گویا ٹارزن کی واپسی ہوتی تھی۔لیکن اتوار کی رات یہ ساری خوشی ایک بدترین مایوسی اور دُکھ میں بدل جاتی کیونکہ انہیں واپس اسلام آباد جانا ہوتا تھا۔
مرشد کا ایک کمال یہ ہے کہ وہ ذہنوں میں پیدا ہونے والے مغالطوں پر خاص نظر رکھتے ہیں۔ تحقیق کے بغیر بات نہیں کرتے۔کسی سوال کا جواب نہ ہو تو خاموش ہوجاتے ہیں اور اگلی دفعہ متعلقہ کتابیں پڑھ کر ، حوالے ساتھ رکھ کر گفتگو کرتے ہیں۔اس کے باوجود جہاں انہیں لگے کہ وہ غلط ہیں، برملا اعتراف کر لیتے ہیں۔ان کی تازہ ترین کتاب’پاکستانیوں کے مغالطے‘ خاص اسی تناظر کے کالموں پر مشتمل ہے۔ کتاب کے تین حصے ہیں ۔ پہلا حصہ ’میں تم اور پاکستان‘۔ دوسرا حصہ ’ملا ، فلسفی اور سائنس‘۔ اور تیسرا حصہ ’بالغوں کے لیے‘ ہے۔ اس حساب سے زیادہ مناسب لگتا ہے کہ کتاب تیسرے حصے سے شروع کی جائے۔یہ تمام کالم ہماری ازلی اور دیمک لگی سوچ کو ایک دم نیا رخ دیتے نظر آتے ہیں۔ یاسر پیرزادہ کے ہاں اپنی بات کو بیان کرنے کا حوصلہ بھی ہے اور جرات بھی۔ برسبیل تذکرہ،یہ وہی یاسر پیرزادہ ہیں جنہوں نے طالبان اور دہشت گردی کے بدترین دور میں اس وقت ان کے خلاف کالم لکھے جب چھوٹی سی مخالفت کا نتیجہ بھی لاش کی صورت میں سامنے آتا تھا۔ اگر آپ کو یاد ہو تو ٹی وی اور اخبار میں دہشت گردوں سے حاصل کردہ وہ لسٹ بھی دکھائی گئی تھی جس میں انہوں نے اپنے مخالفین کی موت کے پروانے جاری کیے ہوئے تھے۔مرشدی کا نام بھی ان میں نمایاں تھا۔میرے جیسے بزدل دوست اس وقت بھی ان کے آگے ہاتھ جوڑتے تھے کہ تھوڑا ہتھ ہولا رکھیں۔ لیکن مرشد ہنستے تھے اور بات ہوا میں اڑا دیتے تھے۔
مرشد کی لائبریری ایسے ایسے دقیق موضوعات کی کتابوں سے بھری ہوئی ہے کہ کئی دفعہ میں زچ ہوجاتاہوں کہ اتنی ضخیم اور بور کتابیں بھلا کوئی کیسے پڑھ سکتا ہے لیکن جس کتاب کو کھول کر دیکھتا ہوں ہرتیسری چوتھی لائن ہائی لائٹ ہوئی ہوتی ہے۔پڑھنا مرشد کا جنون ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔مجھے فخر ہے کہ ان کی قربت میں مجھے بھی چیزوں کو پرکھنے اورتحقیق کے فن کو سیکھنے کا تھوڑا سا شعور ملا۔بنیادی طور پر یاسر پیرزادہ ایک حقیقت نگار ہیں لیکن بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ ان کا سفر مزاح نگاری سے شروع ہوا تھا۔ یہ تڑکا آج بھی ان کے کالموں میں نظر آتا ہے۔ کبھی کبھار وہ موڈ میں ہوں تو پورا کالم طنزومزاح سے بھر دیتے ہیں اور پھر ایسا ایسا جملہ آتا ہے کہ قاری بے اختیار دندیاں نکالنے پر مجبور ہوجاتاہے۔کچھ لائنیں دیکھئے’عاشق جب کسی پر فریفتہ ہوتے ہیں اور جواب میں انہیں لفٹ نہیں ملتی تو پھر وہ اسی محبوب کی شادی میں قناتیں لگاتے ہوئے کہتے ہیں’وہ کہیں بھی چلی جائے مگر ہمیشہ میری رہے گی‘۔’جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں اصلی اور سچی محبت زندگی میں صرف ایک بار ہوتی ہے ان کا دعوی اس وقت صابن کی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتاہے جب کوئی بے وفا انہیں بیچ راہ میں چھوڑ جاتا ہے اور اس ہرجائی کی جگہ انہیں کوئی بہتر آپشن مل جاتاہے‘۔’دنیا میں دو قسم کے مرد ہوتے ہیں ایک وہ جو عورتوں کو پیر کی جوتی سمجھتے ہیں اور دوسرے وہ جنہیں عورتیں جوتی کی نوک پر رکھتی ہیں۔‘‘
’پاکستانیوں کے مغالطے‘ ایک دستاویز ہے جسے کھلے ذہن کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے۔اپنی ذات میں گم ، خود ہی وکیل او ر خود ہی جج کا کردار اداکرنے والوں کے لیے یہ بہت خوفناک کتاب ہے۔ یہ آپ کے روایتی تصورات کو ملیا میٹ کر سکتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ کتاب پڑھتے ہوئے آپ پر سکتہ طاری ہوجائے کہ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے؟لیکن اسے پڑھتے جائیے۔ ہر بات دلیل اور تحقیق کی کسوٹی پر پرکھئے اور خود سے سوال کیجئے کہ کون سی بات ٹھیک ہے۔ مصنف نے کوئی حتمی فیصلہ نہیں دیا بلکہ سوچنے کے لیے ٹریگر دبایا ہے۔آپ چاہیں تو ان کی بات سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے بھی جواباً دلیل لائیے گا۔یہی یاسر پیرزادہ کا مقصد ہے۔ وہ اپنی بات کسی پر ٹھونستے نہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی قسم کی جذباتیت کے بغیر بات کی اصل تک پہنچا جائے۔ یہ طریقہ بہت مشکل ہے۔تنقیدی سوچ کے تمام تر معیارات پر پورا اترنا بہرحال اذیت ناک عمل ہے لیکن تطہیر کے اس عمل سے گذرنے کے بعد سچائی کی دھندلی شکل جب واضح ہوتی ہے تو بے اختیار دل سکون اور اطمینان سے بھر جاتاہے۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے آپ کو ڈرائیونگ کرتے ہوئے سڑک پر دور سے ایک بورڈ دکھائی دے۔ آپ اسے پڑھنے سے قاصر ہوں اور بے چینی بڑھ رہی ہو کہ دائیں مڑنا ہے یا بائیں۔ لیکن پھر آپ اس کے اتنے قریب پہنچ جائیں کہ آپ کو واضح طو رپر تیر کا نشان دکھائی دے جائے۔ یاسر پیرزادہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ دھندلکے میں کسی طرف مڑنے سے پہلے تھوڑی زحمت کریں، قریب آئیں اور واضح طور پر بورڈ پڑھیں۔منزل تک پہنچنے کا راستہ آسان اور خوشگوار ہوجائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply