پرچم میں مذہبی تفریق۔۔۔کامران ریاض

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان کا ایک تبصرہ پڑھا جس میں انہوں نے فرمایا کہ ہمیں اپنے پرچم کے سفید حصے پر فخر ہے اور  ہم پاکستانی ہندوؤں کی کاوشوں کی قدر کرتے ہیں۔  پاکستانی پرچم کو مسلم اور غیر مسلم حصوں میں تقسیم کرنے والے تبصرے میڈیا اور سوشل میڈیا پر تو کبھی کبھار سننے   میں آتے ہیں لیکن ایک ذمہ دار سرکاری افسر کی جانب سے اس قسم کی بات نے قلم اٹھانے پر مجبور کردیا۔

قیام پاکستان کے بعد سے پرچم کے متعلق چھپنے والی سرکاری مطبوعات کو دیکھیں تو یہی معلومات ملتی ہیں کہ پرچم کا سبز رنگ خوشحالی اور سفید رنگ امن کی علامت ہے جبکہ چاند ستارہ ترقی کا نشان ہے۔  کم از کم ہمارے علم میں تو نہیں کہ موجودہ  برسوں میں کوئی ایسا فیصلہ سرکاری سطح پر ہوا ہو کہ سبز رنگ کو مسلمانوں اور سفید رنگ کو غیر مسلموں کی علامت قراردے دیا جائے۔  ہمیں تو پاکستانیوں کے درمیان ہر قسم کی تفریق کو ختم کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے نہ کہ یہ کہ پرچم کے بارے میں غلط تصورات کو مزید ہوا دے کر پاکستانیوں میں مزید مذہبی تفریق پیدا کریں۔

اس بات کو مزید واضح کرنے کے لئے کیوں نہ اس روز کی قانون ساز اسمبلی کی کارروائی کا جائزہ لیں جس روز پاکستانی پرچم کی سرکاری طور پر منظوری دی گئی۔ یہ دن تھا 11 اگست 1947۔ جی وہی دن جب قائداعظم نے اپنی مشہور زمانہ تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ریاست کے امور میں کسی سے مذہب، ذات پات یا کسی اور بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کی جائے گی۔ ہم سب پاکستان کے ایک جیسے شہری ہیں۔

اسمبلی نے پاکستان کے پرچم کی منظوری قائداعظم کی اسی تقریر کے تھوڑی ہی دیر بعد دی تھی اور اس اجلاس کی صدارت بھی قائداعظم محمد علی جناح ہی کر رہے تھے۔ منطقی طور پر یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک طرف تو یہ بات کی جائے کہ ریاست کسی سے بھی مذہبی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کرے گی اور دوسری طرف قومی پرچم میں ہی مسلم اورغیرمسلم حصے کی تفریق کر دی جائے۔

قومی پرچم کی منظوری کی قرارداد لیاقت علی خان نے پیش کی۔  اس پوری قرارداد کو حرف بحرف پڑھ لیں، کہیں بھی سبز اور سفید حصوں کی کسی مذہبی اہمیت یا کسی مذہبی گروہ سے تعلق کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔  اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پرچم مستطیل ہوگا جس کی لمبائی اور چوڑائی کا تناسب 3:2 ہوگا۔  پرچم کا ایک چوتھائی حصہ سفید ہو گا جو مستول کی جانب ہوگا جبکہ بقیہ تین چوتھائی حصہ گہرے سبز رنگ کا ہوگا۔ پھر چاند ستارے کا طول و عرض اور پرچم میں ان کی جگہ کا بیان ہے۔

اس قرارداد کی منظوری سے پہلے اسمبلی میں جو بحث ہوئی اس کی روداد بھی دلچسپ ہے۔  سب سے پہلے لیاقت علی خان نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ یہ پرچم کسی جماعت یا طبقے کا پرچم نہیں۔ یہ پرچم تمام پاکستانیوں کی آزادی، خودمختاری اور برابری کی علامت ہے۔ پاکستان ایک ایسی ریاست ہوگا جس میں کسی بھی طبقے کو کوئی خصوصی مراعات یا خصوصی حقوق حاصل نہیں ہونگے۔ یہ ایسی ریاست ہوگا جہاں تمام شہریوں کے  لئیے ایک جیسے حقوق اور مواقع ہوں گے۔

اس کے بعد اسمبلی کے ہندو رکن اور مشہور کانگریسی لیڈر بھیم سین سچر نے تقریر کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ انہیں قائداعظم اور لیاقت علی خان سے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ یہ پرچم کوئی مذہبی پرچم نہیں بلکہ ایک ایسی ریاست کا پرچم ہے جس میں تمام مذاہب کے ماننے والے ایک جیسے شہری کی حیثیت سے رہیں گے۔  انہوں نے اس بات کا بھی خیرمقدم کیا کہ یہ پرچم کسی مذہبی شناخت کا مظہر نہیں۔

پھر بنگال سے کانگریسی رہنما دھریندر ناتھ دتہ نے اپنی تقریر میں اعتراف کیا کہ وہ تقسیم ہند کے مخالف تھے اور اس سے خوش نہیں۔ انہوں نے پرچم پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسلم لیگ کے پرچم سے بہت متشابہ ہے۔ اس پر ایوان سے آوازیں آئیں کہ بھارت کا پرچم بھی کانگریس کے پرچم سے متشابہ ہے۔ جواباً دتہ صاحب نے کہا کہ کانگریس پورے ہندوستان کی نمائندگی کرتی تھی جبکہ مسلم لیگ صرف ایک مذہب کی نمائندہ ہے۔

لیاقت علی خان نے جواب دیتے ہوئے کہا یہ کہنا غلط ہے کہ یہ کوئی اسلام کا مذہبی پرچم ہے کیونکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں ایسا کوئی پرچم نہیں تھا۔ بلکہ چاند اور ستارے تو تمام انسانوں کی مشترکہ میراث ہیں۔ جب کہ سفید بھی تمام رنگوں کا مجموعہ ہے۔

اس کے بعد ایوان نے کانگریس کی پیش کردہ تمام ترامیم مسترد کرتے ہوئے پاکستان کے قومی پرچم کی منظوری دے دی۔

اس تمام تفصیل کے قلمبند کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ پرچم کی اسمبلی سے منظوری کے وقت اس کو مسلم/غیر مسلم یا اکثریت/اقلیت کے جداگانہ حصوں پر مشتمل پرچم کے طور پر پیش نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس کی منظوری ایک ایسے پرچم کے طور پر ہوئی جو شہریوں میں کسی قسم کی تفریق کی نفی کرتا ہے۔   اتنے برسوں بعد پرچم کے سبز اور سفید حصوں کو اکثریت اور اقلیت کی علامت قرار دینا تاریخ کو مسخ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم سب کی شناخت پاکستانی ہونا ہے۔  مذہب کی بنیاد پر پہلے ہی چند طبقات کو الگ تھلگ کر دیا گیا ہے۔ پاکستانی پرچم کو بھی من گھڑت طور پر اکثریت اور اقلیت  کے حصوں میں تقسیم کرنے سے ملک میں مذہبی تفریق مزید گہری ہو گی۔

Facebook Comments

کامران ریاض اختر
پیشہ: تزویراتی مشاورت ، شغل: جہاں گردی ، شغف: تاریخ عالم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply