گل دیپ کمارسے عبدالرحمٰن بننے کی کہانی.۔۔ مرزا شہباز حسنین

گل دیپ کمار بھارت کے صوبہ اتر پردیش کا رہائشی  ہے ۔۔۔گل دیپ کمار بھی لاکھوں بھارتیوں اور پاکستانیوں کی طرح سعودی عرب میں روزگار کے لیے پانچ سال سے مقیم ہےاور  انتہائی دل جمعی اور لگن کے ساتھ  دیارِ غیر میں اپنی روزی روٹی  کما نے میں مصروف ہے ۔میں اور میرے دوسرے ساتھی اس کے کام سے بہت خوش ہیں۔گل دیپ  میں  ویسے تو بے شمار خوبیاں  بدرجہ  اتم موجود ہیں لیکن  اس کی ایک خوبی   باقی  سب پر بھاری ہے اور وہ ہے ہمیشہ سچ بولنا ۔

بہن بھائیوں میں پہلے نمبر پر ہونے کی وجہ سے گھر کی بیشتر ذمہ داریوں کا بوجھ اس کے کندھوں پر ہے۔۔اس کے باوجود ہم نےاس کے ماتھے پر کبھی شکن نہیں دیکھی۔۔لیکن کچھ روز سے  ہر پل ہشاش بشاش رہنے والا   گل دیپ  سنجیدہ اور بجھا بجھا رہنے لگا ۔اس کی طبعیت میں اس بدلاؤ کو محسوس کرتے ہوئے میں نے وجہ دریافت کی  ۔۔۔تو عجیب الجھن کا شکارتھا۔۔۔اسی انداز میں کہنے لگا جتنا سوچتا ہوں الجھن بڑھتی ہی جا رہی ہے،دل  کو کسی طور قرار نہیں ۔۔

میں نے تسلی بھرے لہجے میں کہا کہ  دیکھو گل دیپ تم بھارتی ہو، ہم پاکستانی  لیکن آج تک ہمارے بیچ ایسا کوئی تعصب بھرا لمحہ نہیں آیا کہ ایک دوسرے کو انسان اور دوست سمجھنے کی بجائے پاکستانی اور بھارتی سمجھیں ۔۔۔۔ تم  اپنی الجھن بیان کرو ۔ہم کوشش کریں گے  کہ کوئی حل نکال سکے۔۔

اس کی بے چینی کو زبان ملی تو پھر وہ بولتا چلا گیا۔۔۔۔ مجھے اپنا   دھرم عجیب سا لگنے لگا ہے۔ہر وقت ذہن میں سوال اٹھتے ہیں ۔تا ویلیں تلاش کرتا ہوں۔مگر دل ان تاویلوں سے بہلتا نہیں ۔میرے پتا جی کہتے ہیں دھرم سے من کو شانتی ملتی ہے۔مگر میرا من شانت  ہی نہیں ہو پا رہا۔نجانے بھگوان کی کیا اِچھا ہے۔  یہاں دن بھر محنت کر کے ایک کفیل کو راضی کرنا کتنا  مشکل ہے؟جبکہ میرے دھرم میں تو بے شمار بھگوان اور دیوی دیوتا ہیں ۔ان سب کو کیسے راضی کر سکتا ہوں۔مجھ سے اچھے تو تم لوگ ہو ایک ہی رب ہے تم سب کا، بس اسی کی پراتھنا کرنی پڑتی ہے ۔وہ بولتا گیا۔

جب میں نے محسوس کیا کہ شیشے سے گرد ہٹی ہے تو اسے حکومتی سرپرستی میں قائم  مبلغ ادارے میں  جانے  کا مشورہ دیا۔۔۔جہاں  وہ باقاعدگی سے  جانے لگا اور چند دن کے بعد ہی اس کی الجھنیں دور ہونے لگیں ۔آخرکار گل دیپ کمار نے اسلام کی روشنی سے اپنے دل ودماغ کو منور کر لیا ۔ ا ور  اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام “عبدالرحمن” رکھ لیا۔اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو بھی اس   فیصلے سے آگاہ کر دیا۔

میں گواہ ہوں  کہ اس کے گل دیپ کمار سے عبدالرحمن بننے کا سفر  بہت کٹھن ہے۔کیونکہ انسان کو اپنے جیون میں سب سے زیادہ لگاؤ اپنے  مذہب سے ہوتا ہے۔مذہب اور عقیدہ چھوڑنا ہر گز آسان نہیں ۔انسان نے سب سے زیادہ خون مذہب  کے نام پر بہایا ہے۔مذہب کی خاطر  ہی یہ انسان کسی دوسرے شخص کی جان لے بھی سکتا ہے اور اپنی جان دے بھی سکتا ہے۔گل دیپ کمار نے صدق دل سے اسلام  قبول کیا ۔نماز کی ادائیگی اور دوسرے تمام اعمال نہایت لگن کے ساتھ سیکھے ۔نماز قائم  کرو کی ہدایت پر جی جان سے عمل کیا ۔والدین نے بھی آسانی سے اس کو قبول نہیں کیا۔مگر گل دیپ کمار سے عبدالرحمن بننے کے فیصلے پر استقامت  کے ساتھ آج بھی قائم ہے۔

عبدالرحمٰن کو اسلام قبول کیے   دو سال کا عرصہ ہوچکا  مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ۔عبدالرحٰمن  آج کل پھر بہت بڑی مشکل میں پھنس چکا ہے۔ جو کہ گل دیپ جیسے نو مسلموں کے لیے بہت بڑی مشکل اور ہمارے سماج کا بہت بڑا المیہ ہے ۔مجھے اس کی مشکل کا کوئی حل نظر نہیں آیا اس لیے ساری داستان قارئین کے گوش  گزار کر رہا ہوں۔اس کا سب سے بڑا مسئلہ جو کہ انتہائی گھمبیر ہے۔کاش کوئی اس کا  حل نکال پائے۔عبدالرحمن ابھی تک کنوارہ ہے ۔دوماہ بعد اس کو اپنے گھر جانا ہے ۔پچھلے دو سال سے شادی کی تگ و دو جاری ہے۔مگر ابھی تک سب کوششوں کے   سوائے ناکامی کے کچھ حاصل نہیں ہوا۔عبدالرحمٰن مسلمان لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے ۔مگر اتر پردیش میں کوئی مسلم گھرانہ اس کو رشتہ دینے کے لیے تیار نہیں کیونکہ اس کے والدین اور بہن بھائی ہندو دھرم پر قائم ہیں۔جبکہ ہندو لڑکی سے اس کی شادی طے کی جا رہی ہے ۔

جبکہ علماء نے  اسےآگاہ کیا  ہے کہ ہندو لڑکی سے بنا اسلام قبول کیے نکاح   نہیں ہو  سکتا۔سینکڑوں بت پاش پاش کرکے اپنے اصل کی جانب لوٹنے والا عبدالرحمن  شدید ذہنی کرب  میں  مبتلا ہے ۔ وہ  اس صورتحال سے کیسے نکل سکتا ہے۔اس کا جواب میرے پاس بھی نہیں ۔وہ ایک غریب مزدور آدمی ہے جس کے وسائل  بھی   بے حد محدود ہیں ۔ بوڑھے والدین اور چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی  سر پر  ہے۔وہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو بے سہارا  چھوڑ کر ا لگ دنیا نہیں  بسا سکتا۔۔کوئی بتلائے   کہ ہم بتلائیں کیا ۔ عبدالرحمن  اس شعر کی عملی تفسیر بن چکا ہے۔

ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں،

Advertisements
julia rana solicitors london

اب بتا کون سے دھاگے کو جدا کس سے کریں!

Facebook Comments

مرزا شہبازحسنین
علم کا متلاشی عام سا لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply