پیپلز پارٹی کا یوم تاسیس اور بلاول بھٹو کے مطالبات

طاہر یاسین طاہر
پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی بڑی اور مقبول عوامی سیاسی جماعت ہے ۔یہ امر بھی تسلیم شدہ ہے کہ محترمہ کی شہادت کے بعد جب پیپلز پارٹی کی قیادت عملاً آصف علی زرداری کے ہاتھ میں آئی تو پیپلز پارٹی کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں، جن میں سے ایک وجہ لوڈشیڈنگ ،دہشت گردی اور افتخار چوھدری کی عدالت بھی تھی۔محترمہ کی شہادت کے بعد جب وفاقی حکومت پیپلز پارٹی کو ’’سونپی‘‘ گئی تو اس کے اتحاد میں نون لیگ آئی جو بعد میں بوجہ اپوزیشن میں چلی گئی۔ صدر مشرف کو رخصت کرنے کے بعد آصف علی زرداری ملک کے صدر بنےتو انھوں نے پارلیمان میں جوڑ تور کر کے اپنی سیاسی برتری قائم رکھی،اگرچہ اس حوالے سے انھیں ساکھ اور سیاست کی بھاری قیمت بھی چکانا پڑی۔یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا میڈیا ٹرائل ہر دور میں کیا جاتا رہا۔جب آصف علی زرداری، ملک کے صدر تھے تب بھی پیپلز پارٹی کے خلاف کرپشن کے میگا سکینڈلز افتخار چوھدری کی عدالت میں سنے جاتے تھے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے غلطیاں نہیں کیں، یا پیپلز پارٹی کے عہد میں سرکاری اہلکاروں نے کرپشن نہیں کی۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ صرف لوڈشیڈنگ کا بحران ہی پیپلز پارٹی کو لےڈوبنے کو کافی تھاکہ اس پہ میمو سکینڈل،جنوبی وزیرستان کا آپریشن،پیٹرول کی بڑھتی قیمتیں،اور گیس کی لوڈشیڈنگ نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو دیوار سے لگا دیا تھا۔
یہ امر بھی واقعی ہے کہ پیپلز پارٹی نے پارالیمان کے اندر آئینی ترامیم کر کے جمہوریت کی مضبوطی کی بنیاد بھی رکھی، مگر عام آدمی کو اس سے نہ کوئی غرض ہے نہ اسے پتا کہ این ایف سی ایوارڈ کیا چیز ہے؟اٹھاون ٹو بی کا اختیارصدر سے واپس لے لیا گیا تو اس کا فائدہ کیا ہو گا؟نہ عام آدمی کو انیسویں،بیسویں آئینی ترامیم سے غرض ہوتی ہے، عام آدمی کا مسئلہ روزی،روٹی ،روزگار اور اشیائے ضروریہ کی چیزوں کا ارزاں نرخوں پر ملنا ہی اصل والی جمہوریت اور بھٹو والی پیپلز پارٹی کے ثمرات ہوتے ہیں۔یہ بات غلط ہے کہ صدر زرداری کے دور میں نون لیگ فرینڈلی اپوزیشن کرتی رہی۔یہ نون لیگ ہی تھی جس کے پارلیمانی ممبران لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کے خلاف عوامی جلسوں کی قیادت کیا کرتے تھے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف تو ہتھ پنکھی لے کر مینار پاکستان تلے آ گئے تھے۔القصہ پیپلز پارٹی کا زبردست میڈیا اور عدالتی ٹرائل کیا گیا۔یہاں پیپلز پارٹی کی غلطیوں کا نظر انداز کرنا بھی زیادتی ہو گی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنے پارٹی منشور کی طرف رجوع کرنے کے بجائے اپنی سیاسی بقا اور حکومتی مدت پوری کرنے کے لیے کبھی نون لیگ کی طرف دیکھا تو کبھی مولانا فضل الرحمان کی جمعیت کی طرف، کبھی ایم کیو ایم کی طرف تو کبھی طاقت کی دیگر مراکز کی طرف۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کے اس رویے نے پیپلز پارٹی کے دیرینہ ورکرز کو دکھی کیا اور وہ مایوس ہوئے۔ مذکورہ واقعات کے علاوہ جب عام انتخابات ہوئے تو کالعدم تحریک طالبان نے پیپلز پارٹی،اے این پی اور ایم کیو ایم کو دھمکی دی کہ اگر ان جماعتوں نے انتخابی جلسے کیے تو ان کے جلسوں میں خود کش حملے کیے جائیں گے۔ یہاں تک کے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے کو ملتان سے اغوا کر لیا گیا۔پیپلز پارٹی کی قیادت کا کہنا ہے کہ وہ جمہوریت اور سسٹم کی بحالی کے لیے قربانیاں دے رہی ہے،آصف علی زرداری کی مفاہمتی سیاست کو مگر پیپلز پارٹی کے ورکر ز اور ووٹر نے پسند نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی ایک ایسی جماعت ہے جس کا سیاسی خمیر ہی مزاحمت ہے۔اس بات کو ادراک نوجوان بلاول بھٹو نے کر لیا ہے اور بے نظیر بھٹو شہید کا بیٹا ہونے کے ناتے عوام میں انھیں پذیرائی بھی مل رہی ہے۔ بالخصوص پنجاب میں پیپلز پارٹی کی تنظیم سازی پر بلاول کی توجہ نے جیالوں میں نئی سیاسی حرارت پیدا کر دی ہے۔بلاول بھٹواور پیپلز پارٹی کی دیگر سیاسی قیادت کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ ان کا ووٹر اور سپورٹر ان سے کیا چاہتا ہے ،خاص طور پہ جب پانامہ لیکس سکینڈل اپنے زوروں پر ہے تو۔بلاول بھٹو جس طرح اپنے جلسوں میں وفاقی حکومت کو للکارتے ہیں اس سے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں پیپلز پارٹی بھی سڑکو پر ہو گی اور حقیقی معنوں میں اپوزیشن کرے گی۔
یہ امر واقعی ہے کہ اگر بلاول بھٹو نے کسی احتجاجی تحریک کی سڑکوں پر قیادت کی تو پیپلز پارٹی کے خاموش ووکر بھی انگڑائی لے کر احتجاج میں شریک ہو جائیں گے،پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس بات کا یقین ہے اور امید ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے پرانے ووٹرز کو سیاسی سرگرمیوں میں متحرک کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔اسی لیے توپیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ اگر 27 دسمبر تک ہمارے مطالبات نہ تسلیم کیے گئے تو پھر ’گو نثار گو‘ کی جگہ ’گو نواز گو‘ کا نعرہ لگائیں گے۔بلاول بھٹو زرداری نے یہ بات لاہور میں پیپلز پارٹی کے 49 ویں یومِ تاسیس کے موقع پر خطاب کے دوران کہی خیال رہے کہ اس سے قبل بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کے سامنے چار مطالبات رکھتے ہوئے کہا تھا کہ اگر یہ مطالبات پورے نہ کیے گئے تو وہ لانگ مارچ کریں گے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply