پاکستانی سفارت کاری اور غیرذمہ دارانہ روئیے

اب جبکہ پاکستان کی ناکام سفارت کاری اور سفارتی تنہائی کی باتیں معمول بن چکی ہے مگر سفارتی سطح پر غیرذمہ دارانہ بیانات اور اس سے پیداشدہ خجالت اور شرمندگی اس سفارتی بحران کی شدت کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ سفارت کاری کے علم اور فن دونوں پر ہم جیسے غیر سفارتکار لوگوں کی بات بڑی عجیب لگتی ہے ۔ مگر سفارتی میدان میں حماقتیں اور سنگین غلطیاں دیکھ کر چار و ناچار اس پر بات کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ بقول شخصی اگر وہ کوئی بیوہ قوف نئی بیوقوفی نہ کریں تو لوگوں کو کیا ضرورت کہ انکی پرانی بیوہ قوفیوں کو یاد کریں۔ یہی حال ہہاری سفارت کاری کا بھی ہے ۔ اگر پاکستان کے سفارتی معاملات چلانےوالے غلطیوں پر غلطی نہ کریں تو ان پر انگلی اٹھانے کی نوبت نہیں آئیگی۔
بین الاقوامی تعلقات کا شعبہ انتہائی نازک اور اہم ہوتا ہے،اور اس میں ہر بات کہنے اور پبلک کرنے سے پہلے اس کو ہر حوالے سے پرکھا اور تولا جاتا ہے کہ مبادا بیان میں کوئی تذبذب اور خوش فہمی یا غلط فہمی پیدا نہ ہو ۔ اسلئے اکثر الفاظ کی ادائیگی کرتے وقت ضبط اور احتیاط کا دامن تھامے رکھنا پڑتا ہے۔ کیونکہ بین الاقوامی تعلقات میں افراد کے نہیں بلکہ ریاستوں کے درمیان تعلقات داؤ پر ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں بے احتیاطی اور سفارتی اصولوں اور آداب سے روگردانی کی وجہ سے کبھی کبھار سفارتی سطح پر بدمزگی اور شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے ۔ جس کی حالیہ مثال روس کے حوالے سے یہ خبر تھی کہ روس نے چین،پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے ۔
روس کے بارے میں سرکاری سطح پر ایسی باتیں کی گئیں کہ آخر کار روسی حکومت نے مجبور ہو کر وضاحت کردی ۔ گذشتہ دنوں پاکستانی میڈیا نے اعلیٰ حکام کے حوالے سے روس کی جانب سے گوادر کی بندرگاہ کے استعمال اور سی پیک منصوبے میں شمولیت کی باقاعدہ درخواست کا ذکر کیا تھا اور گذشتہ ماہ روس کی انٹلی جنس ایف سی بی کے سربراہ الیگزینڈر بورٹنی کوف کے خفیہ دورہ پاکستان کا ذکر بھی کیا تھا ۔ اس طرح روسی حکام کے دورہ گوادر کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔ اس بیان کے تین دن کے اندر اندر روسی وزارت خارجہ کا تردیدی بیان آیا اور سی پیک کے حوالے سے خفیہ مذاکرات کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ روس نے سی پیک منصوبے میں شرکت کے حوالے سے پاکستان کے کیساتھ مذاکرات نہیں کئے ۔
سفارتی تعلقات میں تردیدی بیانات کو ناپسندیدہ عمل سمجھا جاتا ہے ۔ اور اس سے تعلقات میں بدمزگی پیدا ہوتی ہے ۔ اس وجہ سے دو ممالک کے تعلقات اور متعلقہ ممالک کے ذمہ داران کے درمیان بات چیت کو بے حد احتیاط سے لکھا اور بیان کیا جاتا ہے۔ روس کے معاملے میں اس سے پہلے بھی کئی بار ہمیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ مثلا ًچند سال پہلے تواتر سے روسی صدر کی دورہ پاکستان اور اس کی منسوخی کی خبریں چھپتی رہی ہیں ۔ جس پر روسی وزارت خارجہ کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ روسی صدر ولاڈی میر پوٹین کا نہ تو کوئی دورہ پلان تھا اور نہ اس کی منسوخی کا سوال پیدا ہوتا ہے ۔
عموما ًیہ صورتحال اس وقت پیدا ہو جاتی ہے جب یا تو دیگر ممالک کی اعلی ٰشخصیات کے ساتھ بات چیت کو غلط معنی پہنائے جاتے ہیں یا ان کے موقف کو صحیح پیش نہیں کیا جاتا اور یا اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات بہت سی مصلحتوں کی بناء پر ممالک اپنے تعلقات کو یا جاری بات چیت کو منطقی انجام تک پہنچنے سے قبل افشا نہیں کرنا چاہتے۔ اس طرح غیر سفارت کار افسران کی جانب سے اہم سفارتی تعلقات پر اظہار خیال بھی غلط فہمیاں اور بدگمانیاں پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ صورتحال میں حکومت پر آزاد اور غیر جانبدار مبصرین کی جانب سے سفارتی تنہائی کے الزامات کے بعد حکومت اس تاثر کو زائل کرنے کیلئے غیر ضروری پھرتی کا مظاہرہ کرنے لگی ہے ،اور بہت سی چیزوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے لگی ہے۔
مذکورہ اخباری بیان کی ملک کے تمام چھوٹ بڑے اخبارات میں بھرپور اور نمایاں کوریج اس بات کی غماز ہے کہ یہ خبر کسی رپورٹر کی ذہنی اختراع نہیں بلکہ سفارتی اسرار و رموز سے نا آشنا کسی سرکار ی بابو کی لکھی گی تحریر تھی۔ جس کا مقصد سفارتی تنہائی کے تصور اور الزام کو زائل کرنا اور داخلی رائے عامہ کیلئے سفارتی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا تھا ۔ پاکستان میں سفارتی ناکامیوں کی ایک بنیادی وجہ دو عملی ہے ۔ یہاں پالیسی بناتا کوئی اور ہے اور چلاتا کوئی اور ہے۔

Facebook Comments

ایمل خٹک
ایمل خٹک علاقائی امور ، انتہاپسندی اور امن کے موضوعات پر لکھتے ھیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply