کمیونسٹ اور جدید قومی تحریک۔۔شاداب مرتضٰی

سندھ کی جدید قوم پرستی اور قومی تحریک کا بانی کون ہے اس معاملے پر سندھ میں قومی تحریک اور سوشلسٹ تحریک سے وابستہ بعض حلقوں میں ایک بحث جاری ہوگئی ہے۔ اس حوالے سے کامریڈ خالق جونیجو نے اپنے ایک مضمون میں جدید قوم پرستی اور قومی تحریک کا تصور پیش کیا ہے۔ ضمنی باتوں میں جائے بغیر ہم اس بارے میں بحث کے نظریاتی پہلو پر بات کریں گے۔

کامریڈ خالق جونیجو اپنے مضمون میں جدید قومی تحریک کا تصور پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں: “سندھ میں جدید قوم پرستی کو سمجھنے کے لیے جدید قوم کے ارتقاء کے تصور کو دیکھنا ہوگا۔ جدید قوم کا وہ تصور جسے دنیا آج مانتی ہے اور جسے جی۔ ایم۔ سید نے سندھی قوم پرستی کی بنیاد بنایا ہے (وہ) اٹھارویں  صدی کے دوران یورپ میں وجود میں آیا۔ تقریباً ایک ہزار سال تک یورپ اندھیروں کے جس دور میں رہا اس کے دوران مذہب (چرچ)، جاگیرداری اور سلطنتیں/بادشاہتیں بالادست تھیں۔ پھر نئی بیداری (سجاگی) کے دوران تین دوسرے عنصروں نے انہیں شکست دے کر ان کی جگہ لی: سیکیولرازم، کاروبار اور صنعت، اور قومی ریاستیں۔ اس طرح جدید قوم کے وصف کی بنیاد پڑی جن میں مشترکہ تاریخ، جغرافیہ، زبان، کلچر اور اقتصادی مفاد (مشترکہ منڈی) شامل ہیں. اس کا ایم سبب یہ تھا کہ ان لوگوں کے درمیان کاروبار آسانی سے ہو سکتا تھا جن کی زبان اور ثقافت ایک جیسی ہو۔ اس طرح جدید قوم پرستی یا قومی تحریک فطری طور پر اپنی ساخت میں سیکیولر، سامراج مخالف اور جاگیردار دشمن ہوتی ہے۔”

یہ واضح ہے کہ “جدید” قوم کی خاصیتوں (وصف) کے بارے میں ان کا تصور مارکسزم-لینن ازم کی اس تعریف پر مبنی ہے جسے جوزف اسٹالن نے اپنی اہم تصنیف “مارکسزم اور قومی سوال” میں پیش کیا تھا۔ حالانکہ یہ اوصاف درست بیان کیے گئے ہیں لیکن یہ “جدید” قوم کے نہیں بلکہ “قوم” کے یا “پرانی” قوم کے اوصاف ہیں۔ اٹھارویں صدی کی قومی تحریک سے پہلے، یعنی جاگیردارانہ عہد میں، انسانوں میں قومی شعور کا وجود نہیں تھا۔ قومی تصور سرمایہ دار طبقے کے معاشی ارتقاء کے دوران پیدا ہوا۔ سرمایہ دارانہ پیداوار کے ارتقاء نے مختلف علاقوں کے لوگوں کو ایک “قومی” منڈی میں مرتکز کرنے کے لیے سماجی حالات پیدا کیے اور سرمایہ دار طبقے کو ریاستی اقتدار کے حصول پر مائل کیا۔ اس عمل میں سرمایہ دار طبقے نے قوم اور قومی ریاست کا تصور تخلیق کیا۔ چنانچہ، اٹھارویں صدی میں یورپ میں سرمایہ داروں کے زریعے قومی ریاستوں کی تشکیل کرنے والی تحریک “جدید” نہیں بلکہ “اولین” قومی تحریک تھی۔ اس سے قبل تاریخ میں قومی شعور اور قومی تحریک کا وجود نہیں تھا۔

جدید قوم پرستی کے بارے میں انہوں نے جو تصور پیش کیا ہے اس میں ایک بنیادی خامی ہے۔ وہ خامی یہ ہے کہ وہ جدید قوم کی تعریف کے لیے کمیونسٹ نکتہِ نظر پر تو انحصار کرتے ہیں لیکن جدید قومی تحریک کی “طبقاتی” بنیاد کو نہ صرف نظر انداز کر دیتے ہیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ شاید اسے چھپانا چاہتے ہیں حالانکہ کمیونسٹ نظریے نے نہ صرف سائنسی تجزیے کے زریعے قومی تحریک کی یا اس “جدید” قومی تحریک کی طبقاتی بنیاد کو بے نقاب کیا ہے بلکہ کمیونسٹ نظریہ یہ تقاضا بھی کرتا ہے کہ قومی تحریک کی طبقاتی نوعیت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔

کامریڈ خالق جونیجو کے مطابق جدید قومی تحریک نے جاگیرداری کا، جاگیردار طبقے کا، خاتمہ کیا لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ جاگیرداری کا خاتمہ کرنے والا طبقہ کون سا تھا؟ کس طبقے نے پرانی، بادشاہی ریاستوں کی جگہ نئی قسم کی ریاستوں کا، قومی ریاستوں کا، اقتدار حاصل کیا؟ قومی تحریک اور قومی ریاستوں کے وجود میں آنے کے اسباب کا تجزیہ کرتے ہوئے کمیونسٹ نظریہ یہ واضح کرتا ہے کہ یہ سرمایہ دار طبقہ تھا جو قومی تحریک کے زریعے جاگیرداری نظام کو ختم کر کے اور جاگیردار طبقے کو بے دخل کر کے قومی ریاستوں کے اقتدار پر براجمان ہوا۔ کامریڈ خالق جونیجو جاگیرداری کا زکر تو کرتے ہیں لیکن یہ بتانے کے بجائے کہ قومی تحریک کے زریعے سرمایہ دار طبقہ برسرِ اقتدار آیا وہ یہ بتاتے ہیں کہ جاگیرداری کی جگہ “کاروبار اور صنعت” نے لی! جاگیرداری کی جگہ وہ “زراعت” یا “زرعی اجناس کے تبادلے” کے الفاظ استعمال نہیں کرتے مگر سرمایہ داری کہ جگہ وہ “کاروبار اور صنعت” کے الفاظ استعمال کرتے ہیں حالانکہ کمیونسٹ نظریے پر انحصار کرتے ہوئے ان کا فرض تھا کہ وہ پوری حقیقت بیان کرتے اور یہ بتاتے کہ “جدید” قومی تحریک وہ تحریک ہے جس میں جاگیرداری کی جگہ سرمایہ داری نے لی اور جاگیر دار طبقے کو بیدخل کر کے سرمایہ دار طبقہ ریاست کا حکمران بنا۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

ظاہر ہے، ایسا کرنے سے یہ واضح ہوجاتا کہ جسے وہ جدید قومی تحریک کہہ کر اس کا دفاع کر رہے ہیں وہ دراصل سرمایہ دار طبقے کی تحریک ہے اور بہت سے قوم پرست اور بعض سوشلسٹ بھی اس حقیقت کو نظر انداز کرنے یا اسے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ قوم کی تعریف کے لیے اور بعض مرتبہ قومی تحریک اور قوم پرستی کے دفاع کے لیے بھی وہ کمیونسٹ نظریات پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ کامریڈ خالق جونیجو نے بھی جدید قومی تحریک کی وضاحت کے لیے کم و بیش مکمل طور پر کمیونسٹ نظریے پر انحصار کیا لیکن اس میں سے یہ بنیادی بات قصدا خارج کر دی کہ جدید قومی تحریک کی “طبقاتی” بنیاد سرمایہ دار طبقے کی سیاسی تحریک ہے تاکہ وہ ترمیم پسندی کے زریعے کمیونسٹ نظریے کو اپنے مقصد سے ہم آہنگ کر سکیں اور اس بنیادی اور اہم ترین بات کی جانب بحث کے شرکاء اور پڑھنے والوں کی توجہ نہ جانے دیں کہ جدید قومی تحریک مظلوم طبقوں کی آزادی کی تحریک نہیں بلکہ ایک نئے ظالم طبقے کی، سرمایہ دار طبقے کی، استحصال کی آزادی کی تحریک ہے۔

کامریڈ خالق جونیجو کے مطابق جدید قومی تحریک فطری طور پر، اپنی ساخت میں سامراج مخالف ہوتی ہے۔ لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔ ماضی اور حال میں بھی، اور دنیا بھر سے اور سندھ سے بھی، ایسی قومی تحریکوں کی مثالیں دی جا سکتی ہیں جو سامراج مخالف نہیں بلکہ سامراج نواز ہیں، کم از کم اس معنی میں کہ وہ قومی آزادی کے لیے امریکہ اور یورپی سامراجی طاقتوں کی مدد حاصل کرنے کی خواہش رکھتی ہیں۔

اسی طرح اور نکات پر بھی جدید قومی تحریک کے بارے میں ان کا تصور حقائق سے میل نہیں کھاتا۔ مثلا، خصوصا پسماندہ ملکوں میں یہ ضروری نہیں ہے کہ جدید قومی تحریک جاگیرداری کے خلاف ہو۔ اس کے لیے سندھ کی بعض موجودہ قومی تحریکوں کی جانب دیکھا جا سکتا ہے جن میں جاگیرداری کے خلاف کوئی عملی تحریک دکھائی نہیں دیتی۔ بلکہ بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض قومی تحریکیں جاگیرداری کی جانب مفاہمانہ رویہ رکھتی ہیں یا جاگیرداری کے خاتمے کے سوال کو نظر انداز کرتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بحیثیتِ مجموعی دیکھا جائے تو قومی تحریک اور “جدید” قومی تحریک کے بارے میں ان کے تصور کو جدید نہیں کہا جا سکتا۔ اگر قوم کے جدید تصور کی بات کی جائے تو یہ ہمیں کمیونسٹ نظریے میں ملتا ہے۔ لیکن قوم کا یہ جدید تصور جدید قومی تحریک کے مروجہ تصور اور سیاست سے بالکل متضاد ہے۔ کمیونسٹ نظریے کے مطابق قوم کا جدید تصور ایک ایسی قوم کا تصور ہے جس میں سرمایہ دار اور زمیندار (جاگیردار) طبقے نہ ہوں، ان کے ہاتھوں مزدور اور کسان طبقے کا استحصال نہ ہو، وہ ایک ایسی قوم ہو جو ظالم اور مظلوم طبقوں میں بٹی ہوئی نہ ہو اور جس میں قومی وسائل اور قومی ریاست کا اقتدار محنت کش عوام کے ہاتھوں میں ہو قومی سرمایہ داروں اور زمینداروں کے قبضے میں نہیں۔ جدید قوم کا جدید تصور ایک ایسی قوم کا تصور ہے جو طبقوں سے اور طبقاتی استحصال سے پاک ہو۔

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply