• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مولوی؟ کیا سے کیا ہو گئے, دیکھتے دیکھتے اور اب کنٹرول نہیں ہو رہے۔۔۔۔۔غیور شاہ ترمذی

مولوی؟ کیا سے کیا ہو گئے, دیکھتے دیکھتے اور اب کنٹرول نہیں ہو رہے۔۔۔۔۔غیور شاہ ترمذی

مولوی بننا کوئی اتنا آسان تو نہیں تھا مگر شاید اب ہو- پچھلے زمانے  میں مولوی بننے کی تعلیم سند تجوید و قرات قرآن, فاضل دینیات, درس نظامیہ, دورہ حدیث, صحاح ستہ اصول و عروض منقولات و معقولات کی اسناد اور عربی کی گردانیں, گرائمر اور نہ جانے کتنے دوسرے مضامین کو سالہا سال تک پڑھنے پر مشتمل ہوتی تھی پھر کہیں جا کر مولوی بنتے تھے- مولوی بننے کے لئے بنیادی  دنیاوی تعلیم کے بعد بھی 12 سے 16 سال کا طویل عرصہ, مشقت اور سخت محنت درکار ہوتی تھی- بڑی مشکل سے, نہایت مشقت کے بعد مولوی بنتے تھے- اگرچہ یہ بدقسمتی تھی کہ مولوی بن جانے کے بعد فیصلہ ساز طبقہ پر مشتمل معاشرتی گروہوں میں مولوی ناقابل قبول بن جاتا تھا اور اسے کم عقل, جاہل, متعصب اور پتہ نہیں کن کن کرداروں سے یاد کیا جاتا رہا ہے-

مگر گئے وقتوں میں مولوی کی بہت عزت و احترام بھی تھا اور مولوی کے پاس بہت علم و دانش بھی ہوا کرتی تھی- دہلی تو مسلم بادشاہوں کے دور میں علم و فنون کا مرکز تھا- انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کے بعد بھی مولوی کی اہمیت کو بہت اچھی طرح سمجھ لیا تھا- دہلی شہر کے مشہور چاندنی چوک کے نزدیکی محلہ میں کیکر والی مسجد کے مولوی صاحب تھے جو بچوں کو قرآن پڑھاتے تھے، عربی سکھاتے تھے اور اس کے علاوہ فارسی و عربی بھی پڑھاتے تھے۔ ان کے علم و فضل کا یہ حال تھا کہ مشہور و معروف لارڈ کرزن دہلی میں ہندوستان کے وائسرائے بن کر آئے۔ (یہ وہی لارڈ کرزن ہیں جن کی وجہ سے کرزن فیشن رائج ہوا یعنی مونچھوں کا صفایا، اور وجہ یہ تھی کہ لارڈ کرزن کے اوپر کے ہونٹ پر ایک طرف زخم کا نشان تھا اس لئے آدھی طرف کے مونچھوں کے بال ان کے قدرتی طور پر نہیں اگ سکتے تھے اس لئے انہوں نے مونچھیں بالکل ہی مونڈ ڈالی تھیں اور کہتے ہیں مونچھیں مونڈنے کا فیشن یا چلن انہی کی وجہ سے ہوا)۔ لارڈ کرزن عربی جانتے تھے اور ان کے دل میں نہ جانے کیا سمائی کہ وائسرائے صاحب بہادر نے یہ آزمانے کا فیصلہ کیا کہ دہلی میں عربی دان کیسے کیسے ہیں۔ لہذا انہوں نے اپنے سیکرٹری کے ہاتھ بغیر نقطہ اور بغیر اعراب والے ایک عربی ناول کا قلمی نسخہ مولانا محمد علی جوہر کی ملکیت کامریڈ پریس میں بھجوایا کہ اس پر نقطے اور اعراب لگوا دئیے جائیں۔ مولانا محمد علی جوہر نے یہ قلمی نسخہ مفتی کفایت اللہ کو یہ کہہ کر بھجوایا کہ یہ آپ کے امتحان کا پرچہ ہے اور وائسرائے ہند کی طرف سے آیا ہے۔ مفتی صاحب نے جواب دیا کہ اگر یہ کوئی مذہبی کتاب ہوتی تو میں اس پر نقطے اور اعراب لگا دیتا۔ میں ناولوں کا آدمی نہیں ہوں۔ اس پر مولانا محمد علی جو ہر نے یہ ناول کامریڈ پریس کے نزدیک ہی کیکر والی مسجد کے مولوی صاحب کو دیا جنہوں نے رات بھر میں مذکورہ ناول پر بے نقطے بھی لگا دئیے اور اعراب بھی۔ اس کارنامے پر لارڈ کرزن حیران رہ گئے اور خوش ہو کر جب وائسرائے ہند لارڈ کرزن نے ان کیکر والی مسجد کے غیر معروف مولوی صاحب کو شمس العلماء کے خطاب سے نوازنا چاہا تو ان مولوی صاحب نے یہ کہہ کر خطاب لینے سے انکار کر دیا کہ “سخن فہمی عالم معلوم شد”- مطلب یہ تھا کہ شمس العلماء کا خطاب مشہور و معروف علامہ شبلی نعمانی کو بھی ملے اور ہم جیسے نامعلوم کو بھی وہی خطاب-

پتہ نہیں ایسے مولوی بننے کیوں بند ہو گئے اور کہاں گم ہو گئے- اب ہمارے دیسی مولویوں کی طرح ولایتی امریکی مولوی بھی ایسے ہی ہیں کہ ہر بندہ ان سے پریشان رہتا یے- اب امریکہ, یورپ کے مولوی (پادری) بھی یہی کہتے پائے جاتے ہیں کہ “دنیا ختم ہو رہی ہے، ہم سب تباہ ہو رہے ہیں، مسلمان ہمارے ملکوں‌ پر حملہ آور ہیں اور عیسائیت کا دفاع کرو وغیرہ وغیرہ”- اب بندہ پوچھے کہ عیسائیت دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے۔ اگر اس کو بھی دفاع کی ضرورت ہے تو پھر یہ تو سوچئیے کہ کیوں؟- باقاعدہ ریسرچ سے پتا چلا ہے کہ ہمارے مولویوں کی طرح وہ مولوی بھی جھوٹی باتیں بناتے ہیں- اگر ہمارے یہاں کے مولویوں کی معلومات کا منبع چند جھوٹی, فرقہ وارانہ کتابیں ہوتی ہیں تو امریکی مولویوں کی معلومات کا منبع فاکس نیوز جیسے ٹیلی ویژن چینل ہوتے ہیں- ہمارے مولویوں کی طرح ان کی عمومی معلومات/ جنرل نالج بھی اتنے ہی برے ہوتے ہیں۔ وہ دنیا میں‌ زیادہ گھومے پھرے بھی نہیں ہوتے اور ان کو ہمارے مولویوں جیسے ایک ہی دائرہ میں رہنے کی عادت ہے۔ اس دائرے سے باہر وہ نہایت بے آرامی محسوس کرتے ہیں۔ ان کو قطعاً اندازہ نہیں ہوتا کہ دنیا کتنی بڑی، کتنی دلنشین، کتنی خوبصورت اور کتنی دلچسپ ہے۔ ان کو صرف اپنی دنیا ہی ساری دنیا لگتی ہے اور وہ ساری دنیا کے سارے لوگوں‌ کو اپنے جیسا بنا دینا چاہتے ہیں-

جیسا کہ امریکہ اور یورپ نے اپنے مولویوں کو کنٹرول کیا, اسی طرح ہمیں بھی مولویوں کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے- برا ہو جنرل ضیاء کا جس نے مولوی کو حجرے سے نکال کر فائیو سٹار ہوٹل کا راستہ دکھایا اور اب مولوی حجرے کا راستہ ہی بھول گیا ہے- چلیں جی, مولوی کو کنٹرول کرنے کے لئے امریکہ, یورپ کے طریقے استعمال کرنا غیر شرعی ہے تو اپنے مربی و آقا عرب طریقوں کو ہی رائج کر لیں-

ہماری طرح عرب ریاستوں میں مدرسے بھی ہیں اور مولوی بھی- مفتی بھی ہیں اور ان کی مہریں بھی, مفتی اعظم بھی ہیں اور ان کا دفتر بھی, قاضی القضا بھی ہیں اور ان کا محکمہ بھی- عرب ممالک میں محکمہ عدل بھی ہے اور اس کے عادل اور عدالتیں بھی, وزارت مذہبی امور بھی ہے اور مذہبی امور کو جاننے والے بھی- اوقاف کے محکمے بھی ہیں اور ان کے کار پرداز بھی- اذانیں بھی ہیں اور نمازیں بھی- مسلمان بھی ہیں اور مسجدیں بھی- اور تو اور جبہ بھی ہے اور دستار بھی۔ جمعہ کا خطبہ بھی ہے اور عید کے اجتماعات بھی- کچھ ملکوں میں دوسرے مذاہب و مسالک کی عبادت گاہیں بھی ہیں بلکہ سعودی عرب میں تو وزارت دعوہ و الارشاد بھی ہے-

لیکن-۔۔۔۔۔۔ان تمام مدرسوں میں ہر ملک کا اپنا وضع کردہ نصاب پڑھایا جاتا ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی ہوتی رہتی ہے- اس میں جدید تعلیم اور دیگر زبانیں بھی پڑھائی جاتی ہیں- تبدیلی کو حرام نہیں سمجھا جاتا- مولوی کی حدود حکومت مقرر کرتی ہے- مفتی کے مونہہ سے جھاگ نہیں نکلتی اور نہ بات بات پر وہ اپنی جیب سے مہر نکال کر اس پہ تھوک لگانے لگتا ہے-

مفتیان کرام, مفتی اعظم کے بغیر اور مفتی اعظم بھی حکومت کے دیگر متعلقہ محکموں کے سربراہان کے مشوروں کے بغیر کوئی فتوی نہیں دیتا- منصف معزز ہیں اور ان کی عزت کی ضمانت حکومت دیتی ہے- گاؤں اور چھوٹی بستیوں میں آپ بھی اذان دے سکتے ہیں اور امامت بھی کرا سکتے ہیں مگر بڑے شہروں اور بڑی مساجد میں یہ فرائض صرف وزارت مذہبی امور کے مقررہ کردہ امام ہی انجام دے سکتے ہیں- ان کے ریفریشر کورسز اور سیمینار ہوتے رہتے ہیں تاکہ دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں سے وہ باخبر رہیں- جمعہ کی نماز اور عیدین کے خطبات کی تحریریں انہیں متعلقہ وزارت لکھ کر دیتی ہے جو انہیں پڑھنا ہوتی ہے- یوں سمجھ لیں کہ “سر تن سے جدا ” کا نعرہ صرف شاہی جلاد کو زیب دیتا ہے اور وہ بھی اس کا برملا اظہار نہیں کرتا, دل میں کہتا ہو تو پتہ نہیں-

Advertisements
julia rana solicitors london

اسی طریقہ کار کو اپنانے میں ہی سب کی خیر اور سب کا بھلا ہے- اللہ پاک سب کو ہدایت دینے والا ہے-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply