رد تاریخ کا رویہ۔۔۔ ابوبکر

غلام احمد پرویز نے ‘ عجمی سازش’ کے نام سے ایک دلچسپ تصور پیش کیا جو ان کی متعدد کتب میں ملتا ہے۔ اسکے مطابق اسلام ایک عالمی تحریک تھی جس کے اولین نمائندے عرب تھے۔ انہی عربوں نے قیصرو کسریٰ کو شکست دی اور اسلام تمام دنیا پر فتح پانے لگا۔ پرویز کے خیال میں حضرت عمر کے دور تک اسلام کی فتح صاف نظر آنے لگی تھی۔ یہودی اسلام کی ترقی سے خفا تھے اور کسی طرح مسلمانوں کا زوال چاہتے تھے۔ چونکہ یہودیوں میں خود لڑنے کی طاقت نہ تھی اس لیے ایک طرف انہوں نے عرب مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کیا تو دوسری طرف مفتوحہ ایرانیوں کو عربوں کے خلاف بھڑکانا شروع کیا۔ کثیر تعداد میں ایرانی غلام سرزمین عرب لائے گئے تھے۔ اسی سازش کے ایک کردار نے حضرت عمر کو دوران نماز شہید کردیا۔ حضرت عثمان کے دور میں شروع ہوئی پہلی خانہ جنگی بھی یہودیوں اور ایرانیوں کی سازش تھی۔ اس خانہ جنگی کے نتیجہ میں خلافت راشدہ کا خاتمہ ہوگیا۔ واقعہ کربلا بھی ایرانیوں اور یہودیوں کی سازش تھی۔ اس کے بعد پرویز نے مسلم تاریخ کا ایک جائزہ لیتے ہوئے ثابت کرنا چاہا ہے کہ اس عجمی سازش نے اسلام کی حقیقی روح کو دبا دیا ۔ پرویز تشیع کو اسی عجمی سازش کا نام دیتے تھے۔ پرویز نے اپنا تصور تاریخ بھی قرآن سے اخذ کیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ تاریخی واقعات اور مختلف افراد کے بارے میں جو کچھ قرآن نے کہا ہے وہی حقیقت ہے۔ اس کے برخلاف کبھی کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں۔ چونکہ قرآن میں ہے کہ صحابہ ایک دوسرے کے لیے بہت رحم دل ہیں اس لیے پرویز کے خیال میں یہ ممکن ہی نہیں کہ انہی صحابہ نے ایک دوسرے پر تلواریں کھینچ لی ہوں۔ اگر تاریخ میں ایسا کچھ ہے تو جان لینا چاہیے کہ تاریخ جھوٹ ہے۔

تاریخ کے متعلق یہ رویہ ردِ تاریخ کہلاتا ہے۔ جب تاریخ کا مطالعہ کسی مذہب یا نظریہ کی روشنی میں کیا جائے اور ان تمام واقعات کا انکار یا بے جا تاویل کی جائے جو اس نظریہ یا مذہب کے معیار پر پورا نہ اترسکیں۔ پرویز کا تصور تاریخ دراصل ردِ تاریخ ہے ۔ انہوں نے اس رد کی بنیاد قرآن پر رکھی ہے۔ جمہور اہلسنت کا موقف بھی ردِ تاریخ ہے۔ صحابہ کی آپسی لڑائیوں پر خاموشی کی تلقین ہے کیونکہ اہل سنت کے لیے یہ سمجھنا ممکن نہیں کہ جن صحابہ کی شان میں آیات اور احادیث موجود ہوں ان کے ایسے باہمی واقعات پر کیا رائے دی جائے۔ اہلسنت کا ردِ تاریخ قرآن کے علاوہ احادیث کو بھی بنیاد بناتا ہے۔ کچھ سال قبل میں مسلم تاریخ کے ان مسائل پر تحقیق کررہا تھا تو ایک مہربان دوست کی اعانت سے مکتب دیوبند کے معروف عالم اور مانچسٹر میں اسلامک ریسرچ سنٹر کے روح رواں علامہ ڈاکٹر خالد محمود سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ علامہ صاحب نے پیرانہ سالی اور علالت کے باوجود نہایت شفقت سے میری باتیں سنیں۔ ان دنوں تازہ تازہ محمود عباسی کی کتابیں پڑھی تھیں اور مجھے محسوس ہوتا تھا کہ واقعہ کربلا کے متعلق شیعہ اور اہل سنت دونوں غلطی پر ہیں اور اپنے دعووں کی بنیاد تاریخ کی بجائے عقیدے پر رکھتے ہیں۔میں نے مسلم تاریخ نگاری کے ان مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان سے رائے طلب کی تو وہ نہایت متانت اور سادگی سے فرمانے لگے کہ اہل سنت تاریخ کا رد تو نہیں کرتے لیکن وہ ایسی کسی تاریخ کو نہیں مان سکتے جو احادیث کے متضاد ہو۔ پس یزید کو تو برا کہا جا سکتا ہے لیکن حسین ابن علی کے بارے میں کوئی تنقیدی رائے اہل سنت نہیں دے سکتے۔ واقعات کی تاریخی تحقیق جو بھی ہو لیکن ان کی شان میں واضح احادیث موجود ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر مذاہب ردِ تاریخ رویہ رکھتے ہیں۔ مسلم تاریخ میں تنقید کی اولین روایت تشیع تھی۔ تشیع نے اصحاب اور خلفا کے تاریخی کردار کو عقیدت سے ہٹ کر دیکھنے کی رسم ڈالی۔ یہ بجائے خود بہت مثبت پیش رفت تھی۔ لیکن تنقید کی یہ روایت بھی چونکہ اپنی بنیاد میں مذہبی تھی پس تشیع نے اپنی مذہبی شخصیات سے وہی عقیدت پیدا کی جو دیگر طبقات اصحاب سے رکھتے تھے۔ اس طرح کل ملا کر بات دوبارہ وہیں آگئی۔

رد تاریخ کے اس رویے کے ساتھ بعض دیگر رجحانات بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ تاریخ حقیقی انسانوں کے افعال کی منظم کلیت ہے۔ چونکہ معاشرہ بھی حقیقی انسانوں کی بامعنی سرگرمیوں پر مبنی ہوتا ہے اس لیے تاریخ اور معاشرے میں گہرا تعلق ہے۔ پیچیدہ بات کو آسان لفظوں میں کہا جائے تو یوں ہے کہ تاریخ اور معاشرہ دونوں ہی ایک سی بامعنی اور منظم انسانی سرگرمی ہیں۔ جبکہ عقیدہ فرد کا ذہنی رویہ ہوتا ہے۔ عقیدہ ایک کلمہ یا بیان ہوتا ہے جس پر یقین رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ جب عقیدے کو بنیاد بنا کر تاریخ کا رد کیا جاتا ہے تو معاشرت کے کئی دیگر مظاہر بھی رد کر دئیے جاتے ہیں کیونکہ تاریخ اور معاشرت تقریباً ایک جیسی انسانی سرگرمیاں ہیں۔ چنانچہ پرویز کی عجمی سازش میں تصوف کا رد بھی ملتا ہے۔ پرویز اسے بھی اسلام پر بیرونی اثر سمجھتے ہیں۔ عجمی تصوف کا یہ رد ہمیں اقبال کے ہاں بھی نظر آتا ہے۔ براؤن نے بھی تاریخ ادبیات ایران پر اپنی شاہکار کتاب میں تصوف اور تشیع کو عرب حملہ آوروں کے خلاف ایرانی مفتوحین کا حربہ قرار دیا ہے۔

عجمی سازش اور اسی طرح کے دیگر رد تاریخ نظریات ہمیشہ سے مذہبی بنیاد پرستوں کو طاقت فراہم کرتے ہیں۔ مذہبی بنیاد پرستی عقیدے کو معاشرت اور تاریخ سے بلند سمجھتی ہے۔ بنیاد پرستی کا ماننا ہے کہ عقیدے کا حقیقی صورتحال کے مطابق ہونا ضروری نہیں۔ اصل بات تو حقیقی صورتحال کا عقیدے کے مطابق ہونا ہے۔ مذہبی بنیاد پرست اور رد تاریخ مذہبی اسکالر یہ بھول جاتے ہیں کہ عقیدہ اور شے ہے جبکہ اس کا ثقافتی و تاریخی اظہار بالکل اور شے ہے۔ عقیدہ بیان اور تصور ہے جبکہ معاشرہ اور تاریخ عمل ہیں۔ بنیاد پرست اور رد تاریخ اسکالر عقیدے کو حقیقی عمل سے جدا کر کے دیکھتے ہیں جبکہ خیر و شر کی رزم گاہ تو معاشرہ اور تاریخ ہیں۔ میرے ذہن میں موجود کوئی خیال بہت خوبصورت ہوسکتا ہے لیکن اس کے قبیح پہلو تب ہی سامنے آئیں گے جب وہ خیال عمل میں ڈھل کر سامنے آئے گا۔ عقیدے کو جب معاشرتی و تاریخی عمل سے جدا کر کے مجرد شکل میں دیکھا جاتا ہے تو وہ ہمیشہ ہی بہت بھلا اور نیک محسوس ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گذشتہ ایک تحریر میں مسلم ثقافت پر بات کرتے ہوئے میں نے عرض کیا تھا کہ تشیع عرب مسلم ثقافت کا داخلی بحران ہے۔ اس ضمن میں دیکھیے تو رد تاریخ کے قائل مذہبی علما اپنے داخلی بحران سے توجہ ہٹانے کے لیے کسی بیرونی سازش کا مفروضہ قائم کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ بات چھپانے کے لیے کہ صحابہ نےآپس میں جنگیں کی یہ حضرات سمجھتے ہیں کہ یہ سب یہود اور پارسیوں کی سازش تھی۔ موجودہ دور میں بھی خراب ملکی حالات سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے غیرملکی ایجنسیوں کی سازشوں کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ مسلم تاریخ میں اس ساز ش کا سہرا یہود کے سر ڈالا جاتا ہے حالانکہ تاریخی طور پر شام اور اردن کی فتح کے بعد یہود مسلمانوں کے حلیف بن گئے تھے کیونکہ پہلے وہ ان علاقوں میں رومن مسیحیوں کے ماتحت تھے جو ان پر سخت ظلم کرتے اور مذہبی آزادی نہ دیتے تھے۔ اس زمانے کا لٹریچر اس امر کا گواہ ہے۔
عقیدہ کو تاریخ پر فوقیت دینے کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسلمان اپنی تاریخ کا تنقیدی جائزہ لینے کی بجائے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر آج بھی وہ محض اپنے عقائد درست کر لیں تو تاریخ ان کے سامنے جھک جائے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”رد تاریخ کا رویہ۔۔۔ ابوبکر

  1. بھت خوب ۔ الفاظوں کا چناؤ ایک تیز دھاری تلوار جیسے مودودی کا قلم لیکن صراحت اور منطق سے جڑی بھر پور تحریر۔ شیعوں اور سُنّیوں کو اب بڑا ھو جا نا چاھیے ۔ اندھی عقیدت نے سوچوں پہ پھرے بٹھا دیے ھیں ۔ it has to stop now

Leave a Reply