لانبی بعدی اور ہمارے رویے۔۔۔۔صبور ملک

سال تھا 1926،برصغیر پر تاج برطانیہ کا دور اپنے عروج پر تھا،موجودہ بہاولپور جو اُس وقت ایک مسلمان ریاست تھی جس کی سب سے بڑی عدالت چیف کورٹ میں ایک مسلمان عورت نے رٹ دائر کی جس میں اُس نے موقف اختیار کیا کہ میرا شوہر قادیانی ہوگیا ہے،لہذا میرا نکاح فسخ کر کے مجھے خلع کی ڈگری جاری کی جائے،انگریز دور،مسلمان ریاست،مقدمہ بھی اپنی نوعیت کا ایک منفرد مقدمہ،جج مسلمان،فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا،یہ مقدمہ 9سال زیر سماعت رہا،اور اسکا فیصلہ1935کو ہوا،گو اس مقدمے کے فریقین کوئی ممتاز حیثیت نہیں رکھتے تھے لیکن اس مقدمے میں اُٹھائے گئے سوالات اور اُ س وقت کے مقامی و سیاسی حالات کے پیش نظر اس مقدمے کی وجہ سے مسلمانوں اور قادینوں کے درمیان ایک بڑا اہم تنازعہ کھڑا ہو گیا اور سوال اُٹھ کھڑا ہوا کہ آیا قادیانی مذہب اختیار کر لینے کے بعد کوئی شخص مسلمان رہتا ہے یا نہیں،او راس پورے مقدمے کے فیصلے کا دارومدار اسی بات پہ ہونا تھا،۔لہذاجج کے سامنے قریب ایک ہزار علماء پیش ہوئے،جن سے یہ سوال پوچھا گیا کہ مسلمان کی تعریف کیا ہے؟ اورنبی کسے کہتے ہیں؟ اور نبوت کی حقیقت کیا ہے؟

مقدمے کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اُس وقت کے نامی گرامی مولوی جج کو اس بات پر قائل نہ کرسکے کہ نبوت کی کیاحقیقت ہے؟ نبی کسے کہتے ہیں؟ اور مسلمان کی تعریف کیا ہے؟جج نے فیصلہ سناتے ہوئے عظیم مفکر قرآن علامہ غلام احمد پرویز کے ایک مقالے کا سہارا لیا اور اپنے فیصلے میں بھی اس کا ذکر کیا کہ میرے سامنے قریب ایک ہزار سے زائد مولوی حضرات پیش ہوئے اور طویل بیانات قلم بند کروائے،لیکن ان ایک ہزار میں سے کوئی ایک بھی مجھے مطمئن نہیں کرسکا کہ مسلمان کی کیا تعریف ہے؟ نبوت کی حقیقت کیا ہے؟ اور نبی کسے کہتے ہیں؟آخر کار ایک رسالہ بعنوان میکانکی اسلام جسے غلام احمد پرویز نے تحریر کیا ہے،میری نظر سے گزرا جس میں ان سوالوں کے جوابات کو دلائل سے ثابت کیا گیا ہے،اور ان سے فریقین کو بھی کوئی اعتراض نہیں،اس لئے مذکورہ عورت کا دعوی درست ثابت ہوا اور اسکا نکاح فسخ کر نے اور اسکے شوہر کو غیرمسلم قرار دینے کا حکم جاری ہوا،عملاً دیکھا جائے تو عدالت کے اس فیصلے کے بعد تاریخ میں پہلی بار قادیانی مذہب اختیار کرلینے والوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا،لیکن چونکہ ہندوستان اس وقت ایک غلام ملک تھا اور غلام بھی ان کا جو قادیانی مذہب کے بانی تھے،لہذا اس فیصلے سے وہ نتائج حاصل نہ ہوسکے جو مسلم اور قادیانی ہر دو مذاہب میں فرق کو واضح کرتے ہوئے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی دستور ساز اسمبلی سے کوئی قانون پاس کروا سکے،تاہم مستقبل میں اس فیصلے نے دونوں مذاہب میں فرق کرنے والی راہیں ضرور متعین کر دیں،وہ الگ بات ہے کہ ہماری نام نہاد مذہبی پیشوائیت نے غلام احمد پرویز سے عناد اور مذہبی تعصب کی بنا پر قادینوں کو غیر مسلم قرار دینے کے حوالے سے علامہ صاحب کی خدمات کو اُجاگر نہ ہونے دیا اور اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد الگ ہی بنائی رکھی،لیکن تاریخ کی درستگی کے لئے یہ ذکر کرنا مناسب ہے کہ اس کار خیر میں کس کس نے اپنا کردار ادا کیا۔

قادینوں کو غیر مسلم قرار دینے کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ کا اہم موڑ اس وقت آیا جب بھٹو کی حکومت میں قومی اسمبلی نے قادینوں کو غیر مسلم قرار  دے دیا،جس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اب قادیانی پاکستان کے غیر مسلم شہری ہونے کی حیثیت سے آزادانہ طور پر رہ سکتے ہیں اور اُنھیں آئین پاکستان کے تحت وہ تمام حقوق حاصل ہوں گئے جو پاکستان میں بسنے والے دیگر غیر مسلم کوحاصل ہیں،بات اگر یہاں تک ہی رہتی تو معاملات ٹھیک رہتے لیکن مئلہ تب خراب ہوا جب قادیانیوں نے خود کو غیرمسلم ماننے سے انکار کرتے ہوئے مملکت کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھیں،اس میں کافی حد تک قصور ہمارا بھی ہے،پاکستان جیسے ملک میں جہاں ریاست اور ریاستی ادارے مُلا کے زیراثر ہیں جہاں آئے روز مذہب  کے نام نہاد ٹھیکیدار دھونس دھمکی سے ریاست کو اپنے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیں،جہاں غیر مسلم کے مذہب پر سوشل میڈیا پر نفرت آمیز مواد کی بھرمار ہو اور نہ صرف غیر مسلم بلکہ کسی مظلوم کی مدد کے لئے آوازبلند کر نے والے پر فتوی لگا کر قتل کرنے سے بھی گریز نہ کیا جائے وہاں غیر مسلم کیسے پر سکون رہ سکتے ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

عمران خان سے لاکھ اختلافات سہی،لیکن اگر ایک قادیانی کو مشیر لگا ہی دیا گیا تھا تو ہمیں سر ظفر اللہ خان،جوگندرناتھ منڈل،اے آر کانیلس،سیسل چوہدری،ڈاکٹر عبدالسلام،جسٹس بگھوان داس جیسے پاکستانیوں کی مثال سامنے رکھنی چاہیے تھی،رسالتماب محمد ﷺ نے جب بدر میں قریش مکہ کے قیدیوں کی رہائی کے لئے یہ ارشاد فرمایا کہ جو مسلمان بچوں کو تعلیم دے گا،اسے رہائی ملے گی  تو کیا وہ قریش مکہ کے قیدی مسلمان تھے؟نہیں،11اگست کو قائد اعظم نے اسی لئے فرمایا تھا کہ آپ کا مذہب کوئی بھی ہو ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں،ہم بنیادی طور پر منافق اور جذباتی لوگ ہیں،ہم یہودی،عیسائی،ہندو،پارسی،قادیانی کی فیکٹری کی بنی ہوئی مصنوعات تو استعمال کر لیتے ہیں،کسی یہودی،عیسائی،قادیانی ڈاکٹر سے علاج تو کروا لیتے ہیں،حج کے موقع پر ہندو کا تیار کردوہ کھانا تو کھا لیتے ہیں،اپنے بچوں کو غیر مسلموں کے تعلیمی اداروں میں فخر سے تعلیم تو دلوا سکتے ہیں،لیکن کوئی غیر مسلم ہمارا اقتصادی مشیر نہیں بن سکتا،کسی ڈاکٹر عبدالسلام کی تصویراپنی جامعہ میں نہیں لگوا سکتے،ہماری غلط پالیسی،مذہبی جنونیت اور جذباتی پن سے آج قادیانی پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں،اپنی معاشی طاقت،اپنی تعلیم اپنے ہنر کا لوہا منوا رہے ہیں،اور ایک ہم ہیں ابھی تک تو کافر میں مسلمان،وہ کافر یہ کافر کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں،بھائی جب ایک کمیونٹی کو غیر مسلم قرا ر دے دیا گیا اور اس پر کوئی دورائے بھی نہیں کہ لانبی بعدی کے بعد نبوت کا دعوی کرنے والا ہر شخص جھوٹا ہے،اور ایسے شخص کے پیروکار غیر مسلم،پھر ایک مسلم ریاست میں اُن کو جینے کا حق بھی دینا ہمارے دین کا بنیادی تقاضاہے،باقی قادیانی حضرات سے بھی میں یہی کہوں گا کہ جناب آپ اس بات کو اب تسیلم کرلیں کہ آپ غیر مسلم ہیں،ہمیں آپ سے کوئی تکلیف نہیں،لیکن اگر آپ اب بھی خود کو غیر مسلم قرار دینے کے بجائے مسلم قرار دیں تو مسئلہ پیدا ہوگا،لہذا ہر دو فریقین جذبات اور جنونیت کے بجائے عقل سے کام لیں تاکہ مملکت پاکستان کا نظام قائد اعظم کی خواہشات کے مطابق چل سکے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply