• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • وزیراعظم کی نمازِ عید پر غیر ضروری تبصرے۔۔۔طاہر یٰسین طاہر

وزیراعظم کی نمازِ عید پر غیر ضروری تبصرے۔۔۔طاہر یٰسین طاہر

ہر بندے سے صرف اسی کے اعمال بارے پوچھا جائے گا، ہاں جو حکمران ہیں، ان سے ان کی رعیت کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا۔ رعیت کا مفہوم وسیع ہے، یعنی ہر کفالت کرنے والا اپنی مختصر سی رعیت رکھتا ہے۔ ہم سماجی اعتبار سے سطحی فکر کے لوگ ہیں۔ ہر کام میں انتہا پسندانہ سوچ اور اسی سوچ کے زیر اثر ردعمل دینے والے۔ پورے کا پورا سماج ایک ہی طرح کی فکری لڑی میں پرویا ہوا ہے، اگرچہ چند ایک ہیں جو بھیڑ چال کا حصہ نہیں بنتے اور اللہ کی دی ہوئی نعمت عقل کو کام میں لاتے ہیں۔ غور و فکر کرتے ہیں اور دلیل کے ساتھ کوئی نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ آخر الذکر مشکل کام ہے۔ اس لئے لوگوں کی غالب تعداد سہل پسندی کا انتخاب کرتی ہے۔ یہ انسانی نفسیات ہے، جس نے اجتماعی معاشروں کی صورت اختیار کی ہوئی ہے۔ سہل پسند سماج ہمیشہ اپنے فکری رویے کے ہاتھوں بے ثمر نتائج کا سامنا کرتے ہیں۔ معاشروں کی سوچ دو چار دن میں نہیں بنتی بلکہ اس کے لئے عشرے درکار ہوتے ہیں۔

اس انگریزی لفظ کا کاش مجھے اردو میں متبادل مل جاتا۔ ضرور ہوگا مگر میرے علم میں نہیں۔ نان ایشو۔ ہاں ہم سماجی حیات کے ایسے بے راہ رو مسافر ہیں، جو نان ایشوز کو ایشوز بنانے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ یہ بات بڑی تکلیف دہ ہے۔ معروف مذہبی سکالر ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب سے جب مکالمہ کے لئے انٹرویو کرنے گیا تو میرا آخری سوال یہی تھا کہ دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کا رویہ تقلیدی ہے یا تحقیقی؟ ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب نے تاسف کے ساتھ جواب دیا کہ بدقسمتی سے تقلیدی۔ یہی اندھی تقلید تحقیق و جستجو کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ دنیا چاند پر پہنچ گئی اور ہم ابھی تک اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ کون کتنی نمازیں پڑھتا ہے؟ اور کس طرح پڑھتا ہے؟ کون کیا کھاتا ہے اور کیا پہنتا ہے؟ لیکن ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں جاننا چاہے گا کہ وہ خود کیا ہے؟ اور اللہ و اس کے درمیان تعلق کی ریاضت کیا ہے۔؟

ہم وہ مخلوق ہیں جنھیں دوسروں کی عبادت کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ میرے سماج کے غالب حصہ پر ظواہر پرستانہ سوچ غالب ہے۔ لوگ براہ راست خدائی فیصلے اپنے ہاتھ میں لینے کی خواہش میں جی رہے ہیں۔ کئی ایک تو اپنے سطحی اور بے رنگ فہم کو کام میں لا کر فتوے دینے کا کام بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ معاشرہ کیا خاک ترقی کرے گا، جس کا ہر فرد اپنے اخلاق اور عادات درست کرنے کے بجائے دوسروں کے اعمال و اخلاق کا ٹھیکیدار بنا ہوا ہے۔ بخدا ہم میں سے کسی سے بھی دوسرے کے اعمال، عقائد اور نظریات بارے نہیں پوچھا جائے گا۔ حتیٰ کہ سگے بھائی اور بہن کے بارے میں بھی، البتہ ہر شخص اپنے کئے کا ذمہ دار بھی ہے اور اللہ کے حضور جواب دہ بھی۔ دنیا کا سب سے مشکل کام ذات کی اصلاح ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی اس طرف پیش قدمی نہیں کرنا چاہتا۔ عید کی دوپہر سے یہ بحث سوشل میڈیا پر بہت گرم ہے۔ مذہبی نمائشیوں کا ایک گروہ اپنی زنگ آلود صلاحیتیں اس بات پر صرف کر رہا ہے کہ وزیراعظم نے عید کی نماز پڑھی یا نہیں؟ اور اگر پڑھی تو اس کی تصاویر میڈیا کو جاری کیوں نہیں کی ہیں؟ کچھ کا خیال ہے کہ وزیراعظم نماز پڑھتے ہیں نہیں، اور کچھ نے تو سوشل میڈیا کی پوسٹوں میں طرح طرح کی فتویٰ کاریاں کی ہوئی ہیں۔

میرا خیال ہے کہ نماز، روزہ وغیرہ بندے اور اللہ کا براہ راست معاملہ ہے۔ بحثیت پاکستانی ہم وزیراعظم کا مواخذہ ضرور کرسکتے ہیں، مگر اس وقت جب ہمیں یہ احساس اور یقین ہو جائے کہ وزیراعظم عمران خان اپنے عہدے اور منصب کے ساتھ عدل نہیں کر پا رہے۔ جب یقین ہو جائے کہ وزیراعظم پاکستانی عوام کے مفادات پر اپنے خاندان اور بچوں کے مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں، جب یہ احساس ہو جائے کہ وزیراعظم ریاستی امور چلانے میں ناکام ہیں۔ جب یقین ہو جائے کہ وزیراعظم عمران خان بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح اپنے سیاسی قول و فعل میں تضادات کا شکار ہوچکے ہیں۔ جب یقین ہو جائے کہ عمران خان بھی نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل نہیں کروا پا رہے۔ ہمارا اصل مسئلہ عمران خان کی نماز عید پڑھنا یا نہ پڑھنا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اصل مسئلہ غربت، بے روزگاری، اقربا پروری، ٹیکس چوری، پولیس کلچر اور دیگر سماجی برائیاں ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کی بات کرنے والے وزیراعظم کو اپنے اعمال سے ثابت کرنا ہوگا کہ ان کی پیش قدمی درست سمت میں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اخبار نویس کا سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان کا کوئی حاکم، کوئی وزیراعظم، کوئی صدر، پانچ وقت کا نمازی بھی ہو۔ سینکڑوں بکرے صدقہ بھی کرتا ہو، مگر وہ اپنی رعیت کے حق میں بہتر فیصلے نہیں کر پاتا تو ان صدقات و عبادات کو فائدہ اس شخص کی ذات کو تو ہوسکتا ہے مگر پاکستانی سماج کو نہیں۔ نان ایشوز کو ایشو مت بنائیں۔ عمران خان نے یہ وعدہ کیا ہی نہیں تھا کہ وہ پنجگانہ نمازیں بھی ادا کیا کریں گے اور نماز عید بھی۔ عمران خان کے پاکستانی عوام سے وعدوں کی شکل اور ہے۔ ہمارا دھیان اسی طرفٖ رہنا چاہیے۔ ہمیں پاکستان کے اصل ایشوز کو حل کرنے کے حوالے سے حکومت پر دبائو اور نظر رکھنی چاہیے۔ ایک باریک سا خیال اور بھی ذہن میں کوندتا ہے۔ ممکن ہے وزیراعظم نے نماز عید ادا کی ہو، لیکن اس کی تصاویر میڈیا کو جاری نہ کی ہوں۔ ہم کیوں اپنی طرح ہر ایک کو ریاکاری پر اکساتے رہتے ہیں؟ آپ نمازیں پڑھتے ہیں، اللہ پاک قبول کرے، وزیراعظم عمران خان، اعتکاف نہیں بیٹھتے تو اللہ ان سے پوچھ لے گا۔ آپ خدا را خدا بننے کی کوشش مت کریں۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply