ٹرمپ کیلے ناگزیر اقدامات

امریکہ کے حالیہ الیکشن میں ڈونلڈٹرمپ کی حیران کن فتح کے بعد تمام دنیا کے تجزیہ کاروں کی نظریں یہ جاننے کیلیے بے تاب ہیں کہ اس کی آیندہ حکمت عملی کیا ہو گی۔ ٹرمپ کیا کرے گا یا اسے کیا کرنا پڑے گا اسکے لیے اسکی کراماتی فتح کی وجوہات کا جایزہ لینا اہم ہے جن میں اس کے ناگزیر اقدامات تلاش کرنے کا موقع مل سکتا ہے اور ہم اسکے ذہن میں موجود تصویر کے قریب قریب کوی خاکہ کھینچ سکیں گے۔ اسکی کامیابی پر جو تجزیات ساینسی انداز تحقیق میں کیے گیے ہیں ان میں محترم عامر ہاشم خاکوانی کے دو مضامین بہت اہم ہیں جن میں سے ایک سوشل میڈیا پر 9 نومبر2016 کو اور دوسرا 11نومبر کو دنیا نیوز میں شایع ہوا ہے۔ ان مضامین میں تمام نکات اہم ہیں لیکن دو نکات ہمارے موضوع کیلیے بہت اہم اور موزوں ہیں۔

اول یہ کہ امریکی میڈیا نے ٹرمپ کے خلاف خبروں رپوٹوں اور انٹرویوز کی مدد سے ایک مضبوط تاثر پیدا کیا تھاجس میں اس نے کمال ہوشیاری سے خلاپیداکیا اور ایسی تکنیک موجود ہے جس سے یہ تجربہ کسی بھی جگہ حتی کہ تیسری دنیا کے ممالک میں بھی دہرایاجا سکتا ہے اور کوی بھی سیاستدان جسے عوامی مقبولیت تو حاصل ہو مگر میڈیا اسکے خلاف جانبداری سے کام لے تو اسکا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ دوم یہ کہ ٹرمپ نے لوگوں کی نبض پر ہاتھ رکھا اور انکے دل کی آواز کو بھانپ کر اپنی بات سادہ اور عام فہم انداز میں سمجھای اور اس امر کی بالکل بھی پرواہ نہیں کی کہ اسکے کھردرے انداز سے کچھ مسلمان، سیاہ فام، یا ہسپانوی حلقے اس سے ناراض ہو جایں گے۔

سماج کیی پرتوں پر مشتمل ہوتا ہے جو ایک دوسرے سے کیی سماجی اور معاشی رشتوں سے منسلک ہوتے ہوے بھی ایک دوسرے سے مختلف تشخص اور تمدن رکھتی ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص ان میں سے کسی ایک پرت کے ایک حصہ میں اپنی تمام عمر بسر کررہا ہوتا ہے۔ پسماندہ سماج میں اکژیتی پرتیں ساکت وجامد ہوتی ہیں اور محض چند اقلیتی پرتیں جو وسایل پر قابض ہوتی ہیں معاشرت کو چلا رہی ہوتی ہیں۔ ایسے سماج میں گھٹن، بے انصافی اور عدم رواداری غالب ہوتی ہے لہذا سیاست اور ادارے کرپٹ ہو جاتے ہیں۔ متحرک سماج میں یہ پرتیں غیر مریی طور پر متحرک ہوتی ہیں اور ایک ایسے سایکلون کی طرح جو خلا میں بظاہر ساکن اور معلق ہوتا ہے لیکن اسکے اندر ہر پرت کی ہر لہر ایک منظم ترتیب سے متحرک ہوتی ہے بالکل نظام شمسی کے سیاروں کی مانند۔ ایسے سماج میں یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی بیرونی خطرے کا مقابلہ کرنے کیلیے کم ازکم وقت میں تیار ہو جاتاہے۔ اس وقت ہمارے خیال میں دنیا کا سب سے متحرک جدید سماج امریکہ کا ہے جس میں معاشرے کی اکثریتی پرتیں مکمل طور پر متحرک ہیں۔۔۔۔ایسا کیوں ہوا ہے اور یہ سماجی معجزہ کیسے تخلیق کیا گیا اس بحث کو کسی اور وقت کیلیے اٹھا رکھتے ہیں۔

ٹرمپ کی فتح ووٹروں کی ان پرتوں کی وجہ سے ہوی جو پچھلے دو عشروں میں رونما ہونے والی عالمی تبدیلیوں کے باعث خوشحالی سے محروم ہوتا جا رہا تھا۔ ان عالمی تبدیلیوں میں ہمارے ہمسایہ ملک جس سے ہماری دوستی ہمالہ سے بلند ہے کی تمام دنیا کی صنعت پر تالہ بندی کی صلاحیت اور امریکی سرمایہ کا بے رحم ٹیکسوں اور چین کی سستی لیبر کے باعث امریکہ سے منتقل ہو جانا ہے۔ امریکہ میں بڑہتی ہوی بے روزگاری کے باعث ٹرمپ کے سپورٹر ہیلری کے مقابلے میں زیادہ پرجوش تھے۔ ان افراد کا موقف وہی ہے جو ایک کہاوت کے مطابق طوفان کے وقت کشتی سے زاید اور غیر کارآمد دوستوں کے بوجھ کو نکالنا ہوتا ہے۔ ٹرمپ بے روزگاروں کے باعث جیت سکا ہے اور اسکے لیے اپنے پر جوش ووٹرز کے ساتھ کیے گیے وعدے پورا کرنا اسکی سب سے اہم ترجیح ہو گی۔انکی توقعات پر پورا اترنے کیلیے اسکے ذہن پر بننے والی تصویر کی بنیاد ایک لفظ ہو سکتی ہے اور وہ ہے معاشی اصلاحات۔

ٹرمپ نے اپنی کمپین کے دوران یہ اعلان کیا تھا کہ وہ ان تمام غیر ضروری سرکاری منصوبوں کو اپنے اقتدار کے پہلے 100دن میں ختم کر دے گا جن پر امریکی سرمایہ ضایع ہو رہا ہے۔ دنیا کے تقریبا تمام ممالک میں بالخصوص تیسری دنیا کے ممالک بشمول پاکستان میں بیوروکریسی اپنے لیے اضافی آمدن حاصل کرنے کیلیے یا اپنے نااہل بچوں کیلیے کلاس ون کی آسایشات حاصل کرنے کیلیے ایسے ادارے تخلیق کر لیتی ہے جن کی کوی خاص اہمیت یا ضرورت نہیں ہوتی۔ ان غیر ضروری اداروں کا کام پہلے سے موجود بیوروکریسی تھوڑے اضافی سٹاف کے ساتھ آسانی سے کر سکتی ہے لیکن مہنگی آسایشات کے حصول کیلیے ان اداروں کا بھاری بھرکم بوجھ ملکی معیشت پر ڈالا جاتا ہے۔ امریکہ میں ایسے اداروں پر سالانہ 20 بلین ڈالر اخراجات اٹھ رہے ہیں۔ مزیدار بات یہ ہے کہ وہ اعلانیہ یہ بات کہتا ہے کہ لوگ اس وقت خوشحال ہو سکتے ہیں جب ان پر حکومت کے اخراجات کا بوجھ کم سے کم ہو۔ راقم کو خدشہ ہے کہ USAID کے کیی پروگرام جو تیسری دنیا میں چل رہے ہیں وہ انسے متاثر ہوں گے۔ البتہ ملٹری پروگرام اور کونسل فار فارن ریلیشن کے پروگرام اس زد میں نہیں آیں گے۔

امریکہ کے اندر سنجیدہ حلقے اس گمان میں ہیں کہ ٹرمپ اس عالمی بالادستی کو جسے وہ لبرل انٹرنیشنل آرڈر کہتے ہیں، ختم کر دے گا۔ وہ بالادستی جسے 1945سے ابتک کوی درجن بھر صدور نے اپنی کمال ہمت کے مطابق پروان چڑہایا۔ ٹرمپ نے اپنی تقاریر میں یہ واضح طور پر بار بار دھرایاہے کہ امریکہ کو گلوبل ازم کی نہیں بلکہ امریکن ازم کی ضرورت ہے۔ یہ بات عالمی غلبے کے شوقینوں کے لیے ایک تازیانے سے کم نہیں اور یہ سوال جواب طلب ہے کہ امریکہ کے اندر وہ حلقے جو انٹرنیشنل پالیسی پر بالواسطہ طور پر اثر انداز ہوتے ہیں وہ ٹرمپ کو دنیا کی قیادت چھوڑنے دیں گے یا نہیں۔

امریکہ میں جو نامیاتی تبدیلیاں اگلے چار سال میں لای جانی مطلوب ہیں انکے لیے ایسے ہی کسی شخص کی ضرورت تھی جو میڈیا کی تنقید کو کچھ نہ سمجھتا ہو اور اپنے ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہچانے کیلیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہو، ٹرمپ سے موزوں شخص اس سلسلے میں شاید ہی کوی ہو سکتا تھا۔ اسلیے اس کے دور مین میڈیا کی کوی خاص اہمیت نہیں ہو گی۔

ٹرمپ امریکہ میں ٹیکس میں بڑی چھوٹ دینے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ وہ سرمایہ جو امریکہ سے بے رحم ٹیکسوں کی وجہ سے بھاگ گیا تھا اسے واپس لایا جاے اور امریکہ میں زیادہ جاب پیدا کی جاے۔ اس سے امریکہ میں بہت سی چھوٹی اور بڑی کمپنیاں قایم ہوں گی اور معیشت مزید مضبوط ہوگی۔
ٹرمپ کا ایک اور مصمم ارادہ غیر قانونی مہاجرین اور تارکین وطن کی امریکہ آمدپر پابندی اور بالجبر انخلاکیلیے امیگریشن قوانین میں سخت تبدیلی لانا ہے جس سے امریکہ میں مقیم قریبا 11 ملین افراد متاثر ہوں گے جو امریکہ میں سنہرے مستقبل کے خواب آنکھوں میں بساے گیے تھے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ قریبا ایک لاکھ اسی ہزار غیر ملکی تارکین وطن کا مجرمانہ ریکارڈ موجود ہے اور وہ انہی کو امریکہ میں بڑہتی ہوی لاقانونیت اور دہشت گردی کی وارداتوں کی وجہ سمجھتا ہے۔ اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ وہ انکے ساتھ کس قسم کا سلوک کرنے جا رہا ہے۔ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی کے تین اصول ہیں جو اپنے اندر کیی معانی پوشیدہ رکھتے ہیں۔ اول، جس قوم کا کوی بارڈر نہیں ہوتاوہ کوی قوم نہیں ہوتی۔ دوم، جس قوم میں داخلے کے لیے کوی قانون نہیں ہے وہ بھی کوی قوم نہیں ہے۔ سوم، جو قوم (صرف)اپنے شہریوں کی خدمت نہیں کر سکتی وہ بھی کوی قوم نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

غیر قانونی تارکین وطن کے امریکہ داخلے کیلیے ٹرمپ میکسیکو کے بارڈر پر 1000کلومیٹر کی دیوار تعمیر کرانا چاہتا ہے جس میں سے 700کلومیٹر پہلے ہی تعمیر شدہ ہے اور وہ اس کا خرچ بھی میکسیکو سے لینا چاہتا ہے۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ وہ میکسیکو سے خرچ لینے میں کامیاب ہوگا یانہیں البتہ بارڈرکو غیر قانونی طریقے سے پار کرنے والوں پر قیامت ضرور ٹوٹے گی۔ امریکہ کا حالیہ الیکشن یہ واضح کرتا ہے کہ امریکہ کا سماج اپنے مسایل کے حل کیلیے آخری حد تک جا سکتا ہے۔

Facebook Comments

میاں ارشد
لاہور میں مقیم، پیشہ وکالت سے وابستہ۔ بے ضرر ہونے کو انسان کی معراج سمجھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply