مذہبی ریڈیکلائذیشن اور حکومتی قانون سازی

یورپ میں سکارف پہننے پہ پابندی جیسے چھوٹے ایشو کو بنیاد بنا کر تحریکیں چلانے والے اور ان پالیسیوں کے خلاف ڈھنڈورا پیٹنے والے تمام مسلمانوں بالعموم اور پاکستانیوں کا بالخصوص اپنے ممالک میں ہر طرح کی شخصی و سیاسی آزادی کو مذہب کے نام پہ ختم کرنا ایک انتہائی مضحکہ خیز شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ایک طرف وہ مذہب کے نام پہ آزادی مانگتے ہیں اور دوسری طرف اسی مذہب کے نام پہ بنیادی انسانی آئنی آزادیوں پہ بھی سماجی و سیاسی طاقت کے بل بوتے پر قدغن لگا دیتے ہیں۔ اب تو ایسے قوانین بھی حکومتوں کی طرف سے بنا دئیے گئے ہیں جن کا مقصد مذہب کو آلہ کے طور پہ استعمال کرتے ہوئے دراصل سماج کو ریگولیٹ کرتے ہوئے مختلف ڈسکورسز جو کہ ریاست کو چیلنج کرتے ہیں پہ بند باندھنا ہے۔ایسے میں ایک حیرت انگیز تضاد یہ سامنے آتا ہے کہ مغرب میں تو مشرقی لباس پہننے کی آزادی کو تو مسلمان اپنا حق سمجھتے لیکن اپنے ملکوں میں تحریر اور گفتار کی آزادی کو مذہبی قانون بنا کر روکنے کو بھی وہ اپنا حق گردانتے ہیں کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ کیا پہننے کی آزادی لکھنے کی آزادی سے زیادہ معتبر ہے؟ کیا صرف اس بنیاد پہ کسی کو پھانسی کی سزا سنائی جا سکتی ہے کہ اس نے جو کچھ کہا یا لکھا اس نے معاشرے کے مقدس ہالے کو پھلانگ لیا؟ تقدس کیا ہے اور مقدس کی تعریف کون کرے گا؟ اس کی حد بندی کیسے کی جائے گی؟ قانونِ توہین کے نام پہ یہ دستورِ ذبان بندی کیا ہے بھائی؟ یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زبان میری۔ابھی حال ہی میں سوشل میڈیا پہ کی گئی گستاخی کی سزا پہ ملزم کے وکیل کا کہنا ہے کہ فئیر ٹرائل کا اہتمام نہیں کیا گیا اور جج صاحب نے فیصلہ بھی سب سے زیادہ سخت سنایا ہے
عیسائیت جب رومن اقتدار کے ساتھ جڑی تو اس نے ایسا کلیسائی جبر کا ڈھانچہ جنم دیا جس کے علمی روحانی اور مذہبی چنگل سے نکلنے کیلئے ایک ہزار سال سے زائد لگے۔ مسلمانوں کے 19ویں صدی سے شروع ہونے والے سیاسی اقتدار کے زوال نے جس طرح سے ان کے ذہن کو طاقت مرکز اور آئڈینٹٹی کو مزہب مرکز کیا ہے اس سے مذہب اور ریاست کا وہ ناجائز رشتہ شروع ہوا جس کا تاریخی طور پہ ماسوا اکا دکا واقعات کے کہیں سراغ نہیں ملتا۔ ریاست کے زریعے طاقت تو خیر کیا حاصل ہونی تھی اس کے ذریعے اسلام بذاتِ خود ایک جبر کا آلہ بن گیا ہے اور جبر کے آلے کو قائم دائم بحفاظت رکھنے کیلئے مزید جبر کی ضرورت ایک ناگزیر عمل ہے۔ مسلم قومیت کے نعرے سے بندھی ریاست کو اپنی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیئے ایک فوج کی ضرورت توہمیشہ ہی رہی ہے لیکن ابھرتے ہوئے سوالوں سے لدے ذھنوں کو جو انٹر نیٹ کے ذریعے دنیا جہاں کی معلومات اور علم سے استفادہ کر سکتے ہیں کیسے کنوئیں کا مینڈک ہی بنا کے رکھا جائے ؟ اس کیلئے کچھ ایسا انتظام ضروری تھا جس کے زریعے ریاستی طاقت بنا جبر کے انتہائی منصفانہ انداز میں غلط اور صیح روئیوں کی تفریق قائم کر دے۔ جدید ریاست میں ایسا کوئی بھی مقصد حاصل کرنے کا زریعہ قانون سازی ہے۔ قانون سازی کے زریعے حکومت کرنے کے عمل کو سمجھنے میں فوکو (فرانسیسی فلسفی) ہماری مدد کرتا ہے۔ فوکو کے نزدیک جدید ریاست کا مدعا اور مقصد شہری نہیں سبجیکٹ بنانا ہوتا ہے اور ایسا کرنے کیلئے وہ قوانین کا سہارا لیتی ہے ۔ ان قوانین کااہم مقصد ریاست کے مختلف پراجیکٹس کی مد میں ضرورت کے مطابق سبجیکٹ کا پیدا کرنا ہوتا ہے۔ مثلا اگر ریاست 21 ترمیم پاس کرتی ہے تو ہر طرح کے مختلف رائے یا نظریہ رکھنے والے لوگوں کو یہ چتاونی دی جاتی ہے کہ صاحبو اپنے اعمال درست کر لو۔ ایسے قوانین کی رو سے ایک بڑی عوامی تعداد اپنا قبلہ سیدھا کر لیتی ہے جبکہ بقیہ جو چند ایک شر پسند ہوتے ہیں انکو پھر ریاست کے جبر کے زرایع کے ذریعے سیدھا کر لیا جاتا ہے۔
توہین کے قانون کو سائبر کرائم لا کا حصہ بنانا بنیادی طور پہ اسی آرٹ آف گورنمنٹ کا حصہ ہے جس کا مقصد بڑھتی ہوئی تعداد میں لکھنے والوں کو سیلف سنسر شپ پہ مجبور کرنا ہے اور ڈسکورس کی حد کو اپنی مرضی سے متعین کرنا ہے۔ کیا کہا جا سکتا ہے؟ کتنا کہا جا سکتا ہے؟ اور کیسے کہا جا سکتا ہے کے ساتھ کیا کہا جانا چاہیے بھی ایسے حکومتی پراجیکٹ کا حصہ ہوتا ہے۔سوشل میڈیا بلاگر کو دی جانے والی پھانسی کی سزا اس امر کی گواہی ہے کہ پاکستانی ریاست مذہب کے سٹریجک استعمال کو ہی اپنی موجودہ شکل میں بقا گردانتی ہے اور تمام تر شور و غوغا کے باوجود ریاست اور قوم
کی تعمیر کے پراجیکٹ میں مذہب کے استعمال سے دست بردار نہیں ہوئی ہے۔
تاہم کیونکہ پاکستان کی ریاست ایک نیو کولونیل ریاست ہے اس لئے اس کا حکومتی بندوبست قانون سازی اور دھونس دونوں کے مشترکہ تعاون سے چلتا ہے۔ ایک طرف اگر قانون بنائے جاتے ہیں تو دوسری طرف بنا قانونی کاروائی کے بھی لوگوں کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ جنرل ڈائر صرف پچھلی صدی میں ہی نہیں تھے بلکہ آج بھی نا معلوم افراد اختلاف کرنے والوں کو نامعلوم جگہ پہ منتقل کرنے کی پوری طاقت اور صلاحیت رکھتے ہیں
مذہب کا یہ ریاستی استعمال موجودہ شکل میں تو ہمارے زیادہ تر مذہبی رجحان رکھنے والے مڈل کلاس کے دانشوروں کے نزدیک سیاسی، قانونی اور عملی طور پہ درست بھی ہے اور پاکستانی کی تیزی سے ابھرتی ہوئی درمیانی پرتوں ، جو کہ ضیاء استحکام دور میں ہی پروان چڑھی ہیں اور نیو لبرل اکنامک پللیسیوں کی بدولت سماجی ترقی کے قابل ہوئی ہیں، کے تصورٓ حیات و سیاست میں بہت گہرائی میں مذہب کا سیاسی استعمال پیوست بھی ہے۔
تاہم تصورِ سیاست کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیاست کسی طور پہ بھی مڈل کلاس کو استحکام دینے کی اہل نہیں ہے کیونکہ جو ادارہ جاتی تشکیل مڈل کلاس کی بحالی اور ترقی کیلئے ضروری ہے مذہب کے پاس ویسے اداروں کی تعمیر کا کوئی بلیو پرنٹ نہیں ہے۔ جبکہ پاکستانی ریاست ایرانی ریاست کے الٹ کسی بھی قسم کی مذہبی ادارہ جاتی تشکیل کرنے کی خواہش مند بھی نہیں ہے۔ اسلئے ریاست کا بڑھتا ہوا اسلام کا سٹریجک استعمال سوائے مزید سماجی خلفشار پیدا کرنے کے شاید مزید کچھ کرنے کے قابل نہیں ہے۔
ریاست کے مختلف اداروں اور اہم شخصیات کی طرف سے بڑھتی ہوئی مذہبی بیان بازی کے ساتھ ساتھ مذیبی ریڈیکلائزیشن کا عمل سماج میں بھی جڑیں مضبوط کر چکا ہے اور اب تو سماج میں موجود گروہ خود اپنے ذاتی حساب چکتا کرنے کیلئے بلاسفیمی کو ایک ہتھیار بنا چکے ہیں۔ اسی ریڈیکلائزیشن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عائشہ صدیقہ نے ٕ2013 کے اپنے ایکڈیمک آرٹیکل میں یہ نکتہ اٹھایا کہ کہ اب پاکستان میں سیاسی لبرل اسپیسز ختم ہو رہی ہیں جبکہ لبرل لائف سٹائل کیلئے بھی جگہ سکڑ رہی ہے۔ اسرائیل اور پاکستان کا موازانہ کرتے ہوئے انکا کہنا ہے کہ مذہبی نیشنل ازم کی منطقی انجام مذہبی ریڈیکلزم کی صورت میں ہی نکلتا ہے اور ریاستِ پاکستان کی ماضی کی مذہب کیساتھ ایک سٹریجک پارٹنرشپ کا مطلب اب یہ ہے کہ چاہ کر بھی اب اس ریڈیکلائزیشن کو نہیں روکا جا سکتا ایسے میں وہ مذہب پسند افراد اور گروہ جو کہ اسلام کے صرف ایک سیاسی آلہ بن جانے کو درست نہیں جانتے ان کو میدان عمل میں آنا ہو گا
(ادارے کا تحریر سے اتفاق ضروری نہیں ہے۔ مکالمہ اس تحریر کے جواب کیلیے حاضر ہے)

Facebook Comments

اسد رحمان
سیاسیات اور سماجیات کا ایک طالبِ علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”مذہبی ریڈیکلائذیشن اور حکومتی قانون سازی

Leave a Reply