• صفحہ اول
  • /
  • اداریہ
  • /
  • طالبہ کو تیسری منزل سے گرانے والی اساتذہ کے خلاف کارروائی کی جائے

طالبہ کو تیسری منزل سے گرانے والی اساتذہ کے خلاف کارروائی کی جائے

طالبہ کو تیسری منزل سے گرانے والی اساتذہ کے خلاف کارروائی کی جائے
طاہر یاسین طاہر
یہ بد قسمتی ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم و صحت کے حوالے سے کبھی بھی حکومتی ترجیحات کی سمت درست نہ رہی۔دونوں شعبوں میں بجٹ انتہائی کم اور حکومتی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جس کی وجہ سے آئے روز صحت و تعلیم کے اداروں میں کوئی نہ کوئی افسوس ناک اور دل سوز سانحہ پیش آ جاتا ہے۔کبھی ڈاکٹروں کی ہڑتال کی صورت مریض تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں، کبھی لاہور کے بڑے سرکاری ہسپتال میں دل کے مریض اس لیے خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں کہ انھیں ملنے والی دوائی جعلی اور ،زائد المیعاد ہوتی ہے۔ کبھی کوئی غریب میو ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پر تڑپ تڑپ کر جان دے دیتا ہے۔یہ سب وہ واقعات ہیں جو کسی نہ کسی طرح میڈیا یا سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچ جاتے ہیں۔
ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ بالکل اسی طرح سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں بھی نہ صرف طلبا و طالبات کا تعلیمی استحصال کیا جاتا ہے بلکہ ان کا معاشی اور جسمانی استحصا ل بھی کیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے سندھ کے کسی کیڈٹ کالج میں استاد نے طالب علم پر اس قدر تشدد کیا تھا کہ اس بچارے کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ ازاں بعد اس طالب علم کو سرکاری خرچ پر علاج کے لیے امریکہ بھجوا دیا گیا تھا۔اسی طرح کا افسوس ناک واقعہ گذشتہ دونوں لاہور کے ایک سرکاری سکول میں بھی پیش آیا۔یاد رہے کہ لاہور میں سرکاری اسکول کی 2 اساتذہ نے نویں جماعت کی ایک طالبہ کو اپنی باری پر کلاس روم صاف نہ کرنے کی پاداش میں مبینہ طور پر تیسری منزل سے نیچے پھینک دیا، جس کے نتیجے میں طالبہ کو شدید چوٹیں آئیں۔مذکورہ اساتذہ کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔14سالہ طالبہ فجر نور اس وقت لاہور کے گُھرکی ہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے، ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس کے جسم کے مختلف حصے فریکچر ہونے کے ساتھ ساتھ ریڑھ کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی ہے۔
ہسپتال میں موجود طالبہ کے والدین نے میڈیا سے بات کرتےاس بات پر حیرت اور پریشانی کا اظہار کیا کہ اساتذہ اتنا غیر انسانی سلوک کیسے کرسکتے ہیں، انھوں نے وزیراعلیٰ پنجاب سے مطالبہ کیا ہے کہ نہ صرف ان کی بیٹی کا بہترین علاج معالجہ کرایا جائے بلکہ اس عمل کے ذمہ داران کے خلاف بھی سخت ایکشن بھی لیا جائے۔ یاد رہے کہ یہ واقعہ لاہور کے علاقے شاہدرہ، کوٹ شہاب الدین میں واقع سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ گرلز اسکول میں رواں ماہ 23 مئی کو پیش آیا تھا، تاہم اسکول انتظامیہ اور دیگر عہدیداران نے اسے ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ سے خفیہ رکھا۔پنجاب کے سیکریٹری ایجوکیشن (اسکولز) ڈاکٹر اللہ بخش ملک نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ دو سینئر اساتذہ ریحانہ کوثر اور بشریٰ طفیل نے پہلے طالبہ فجر نور کی پٹائی کی اور پھر اسے اسکول کی تیسری منزل سے نیچے دھکا دے دیا۔انھوں نے بتایا،ہمیں واقعے کے بارے میں علم ہفتہ (27 مئی) کو ہوا، اس حوالے سے محکمہ جاتی انکوائری کا آغاز کیا جاچکا ہے اور واقعے کو مکمل تحقیقات کے لیے وزیراعلیٰ کی انسپکشن ٹیم کو بھی بھیجا جاچکا ہے۔
جب سکولوں میں درجہ چہارم کے ملازمین موجود ہیں اور صفائی کرنے والی “آیا” بھی موجود ہوتی ہے تو پھر طالبات کی یہ ڈیوٹی کیوں لگائی جاتی ہے کہ وہ باری باری کلاس روم کی صفائی کریں؟طالبہ “فجر نور” کے والدین کو سکول انتظامیہ نے اطلاع دی کہ آپ کی بچی سیڑھیوں سے گری ہے جبکہ طالبہ نے ہوش میں آنے کے بعد سارا واقعہ اپنے والدین کو بتا دیا اور کہا کہ اسے دو اساتذہ نے تیسری منزل سے دھکا دے کر نیچے گرایا تھا۔طالبہ کے جسم میں جس بری طرح چوٹیں آئیں اور اس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹی،اب کیا وہ بچاری ساری عمر اس کرب سے بچ پائے گی؟ہم سمجھتے ہیں کہ اس واقعے کی اولین ذمہ دار ریاست اور محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران ہیں۔
حکومت پنجاب کو چاہیے کہ مجروح طالبہ کا علاج سرکاری خرچ پر کرائے اور طالبہ کے لیے تا حیات وظیفے کا بھی اعلان کرے۔اس واقعے کی مکمل انکوائری ہونی چاہیے اور مذکورہ سکول کی پرنسپل کو بھی اس واقعے کا ذمہ دار قرار دیا جائے ،کہ اس نے یہ اجازت کیوں دی ہوئی ہے کہ طالبات سے سکول کے کمروں اور چھت کی صفائیاں کرائی جائیں۔طالبہ سے غیر انسانی اور بہیمانہ سلوک کرنے والی دونوں اساتذہ کو نوکریوں سے برطرف کر کے آئندہ کے لئے ان پر یہ پابندی بھی لگائی جائے کہ وہ کسی نجی سکول میں بھی نہیں پڑھا سکیں گی۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply