• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جناب ِ شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی۔۔۔نذر حافی

جناب ِ شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی۔۔۔نذر حافی

انسان دیگر موجودات سے بہت مختلف ہے، دوسروں کی بات کو سمجھنا اور اپنی بات کو سمجھانا انسان کی جبلت ہے۔ افہام و تفہیم کے بغیر انسانی سماج کا تصور ممکن نہیں۔ انسانوں کے برعکس جانوروں کے گلے میں پٹہ ڈال کر کھینچا جاتا ہے۔ جانوروں کے جہان میں افہام و تفہیم کی وہ اہمیت نہیں، جو انسانوں کے ہاں ہے۔ ہمارے ہاں سیاست دانوں سے ناامید ہونے کے بعد لوگ مذہبی رہنماوں سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں، لیکن مذہبی رہنما خود ہر مسئلے پر تقسیم ہیں۔ کچھ علماء پاکستان کے آئین کو اسلامی کہتے ہیں تو کچھ غیر اسلامی، کچھ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ کہتے ہیں اور کچھ کافرستان، کچھ علماء ایم ایم اے کے پلیٹ فارم پر جمع ہونے کو عالمِ اسلام کے لئے بہت بڑی خوشخبری قرار دیتے ہیں اور کچھ علمائے کرام ایم ایم اے کو عالم اسلام کی تمام تر مصیبتوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں، کچھ علمائے دین ایم ایم اے کے قائد کو اپنے قائد کا بھی قائد قرار دیتے ہیں اور کچھ ایم ایم اے کے قائد کو پاکستان کے تمام بنیادی مسائل کا سبب گردانتے ہیں۔ کچھ کے نزدیک پاکستان کے انتخابات میں حصہ لینا شرعی ذمہ داری ہے اور کچھ کے نزدیک انتخابات میں حصہ لینا کفر و شرک کا موجب ہے۔

المختصر یہ کہ اگر اُس طرف جنابِ شیخ ہیں تو اس طرف بھی جنابِ شیخ ہی ہیں۔ ہر کسی کا یہی دعویٰ ہے کہ وہی انقلاب کا علمبردار، بصیرت کا مینار اور سیرت کا پیروکار ہے۔ ہر کوئی اپنے عمل کے لئے آیات و روایات کا سہارا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس زمانے میں فلاں امامؑ کی سیرت پر عمل کر رہا ہوں۔ ظاہر ہے جب ہر طرف سے انالحق کی صدا آنے لگے تو عوام پر حق مشتبہ اور مبہم ہو جاتا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ بھی ہے کہ بعض اوقات لوگوں کی گردنوں میں افکار و نظریات کو پٹے کی صورت میں ڈال کر زبردستی کھینچا جاتا ہے اور مخالفت کرنے والے کی تکفیر تک کی جاتی ہے۔ یعنی عام آدمی سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی سلب کر لی جاتی ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ بس فلاں نے کہہ دیا ہے، لہذا فلاں کی بات پر ہی عمل کرو، صرف یہی حق کا راستہ ہے، ورنہ گمراہ ہو جاو گئے۔ پتہ نہیں ہم کب یہ سمجھیں گے کہ نظریات و افکار ٹھونسنے اور پوجنے کے لئے نہیں بلکہ سمجھنے اور سمجھانے کے لئے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں سوچ و بچار کے بجائے نظریات و افکار کو بھی عقیدت کے ساتھ منوانے کی سعی اور کوشش کی جاتی ہے۔ لوگوں کو تحقیق اور موازنہ کرنے کی ترغیب دینے کے بجائے ان سے اطاعتِ محض کا تقاضہ کیا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں لکھنے والا ایک ہی نکتہ نظر کو لکھتا ہے، بولنے والا ایک ہی بات دہراتا رہتا ہے اور سننے والا ہر وقت سر دھنتا رہتا ہے۔ صرف واہ واہ اور چاپلوسی کرنے والوں کی کبھی نہ ماضی میں کمی تھی اور نہ آج ہے۔ لیکن اب دنیا بہت ترقی کرچکی ہے، افکار و نظریات کے طوق نما ٹھیلوں کی رونق ماند پڑتی جا رہی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں نے سوچنا، سمجھنا اور پرکھنا شروع کر دیا ہے۔ اب جان لیجئے کہ تسبیح کے دانے جتنے بھی ہوں، تسبیح کا گھمانا بھی ایک فن ہے، لوگ مذہبی رہنماوں کے ہاتھوں کی حرکات، چہرے کے تاثرات، زبان کی لکنت اور بیان کی روانی سے بھی بہت کچھ سمجھنے لگے ہیں۔ اب وہ دور نہیں رہا کہ لوگوں کی گردنوں میں عقیدت کا پٹہ ڈال کر انہیں زبردستی کھینچا جائے، اب تحقیق اور جستجو کا زمانہ ہے، لہذا ہمارے مذہبی حلقوں کو بھی چاہیے کہ وہ عوام کی شہ رگ سے تکفیر کا خنجر ہٹائیں، لوگوں کو سیاسی و قومی مسائل کی گہرائی میں اترنے دیں، بال کی کھال اتارنے دیں، مکالمے کو رواج پکڑنے دیں، افکار و نظریات پر مناظرات ہونے دیں۔ جب تک مکالمہ نہیں ہوگا، بحث نہیں ہوگی، تب تک کھرے اور کھوٹے میں جدائی نہیں ہوسکتی۔ ضروری ہے کہ تمام مسائل میں قصیدہ گوئی کے بجائے تجزیہ و تحلیل اور تقابلی جائزہ پیش کیا جائے اور مختلف سیاسی و نظریاتی آراء و نظریات کا باہمی موازنہ کیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تجزیہ و تحلیل کے دوران شخصیات اور تنظیموں کی تعریفوں کے پُل باندھنے کے بجائے ہمیں ہر مسئلے پر طرفین کا موقف بیان کرکے موازنہ کرنا چاہیے۔ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے یا نہیں، پاکستان کے انتخابات میں عوام کو حصہ لینا چاہیے یا نہیں، اور ایم ایم اے کا اتحاد پاکستان کی سلامتی کے لئے کس قدر مفید اور ضروری ہے! ان سوالات کا گہرا تعلق پاکستان کی سلامتی کے ساتھ ہے۔ لہذا پاکستان کی سلامتی کے لئے یہ ضروری ہے کہ کسی کی قصیدہ گوئی کے بجائے حق گوئی کی روش اپنائی جائے، چونکہ دلیل کے بدن پر تاویل کا پتھر رکھنے سے سچائی مر نہیں سکتی اور حق گوئی کے بجائے واہ واہ کرنے اور قصیدہ نگاری سے قوم کی حالت تبدیل نہیں ہوسکتی۔ اب یہ ذمہ داری بنتی ہے ہمارے لکھنے اور بولنے والوں کی کہ وہ لکھتے اور بولتے وقت مذہبی رہنماوں کے بیانات اور اقدامات کی تاویلات پیش کرنے کے بجائے ملکی مسائل پر مختلف آراء کو سچائی کے ساتھ ویسے بیان کریں، جیسا کہ بیان کرنے کا حق ہے۔ ورنہ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ جنابِ شیخ کا نقشِ قدم یُوں بھی ہے اور یُوں بھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply