مودی کا مسئلہ کیا ہے؟ ۔۔۔۔ عمیر فاروق

آخر مودی کا مسئلہ کیا ہے؟ مودی کے آنے کے بعد پاک انڈیا تعلقات میں یکدم تیز اتار چڑھاؤ آرہے ہیں کیا ان کا ذمہ دار مودی ہے؟ یا اس سوال کو ہم یوں بھی بدل سکتے ہیں کہ آخر انڈیا کا مسئلہ کیا ہے؟ یادش بخیر،2009 کی گرمیوں میں ایک انڈین دوست سے ہوئی بحث یاد آرہی ہے۔ یہ دکن کے کرسچین انڈین تھے۔ گپ شپ میں رخ پاکستان کی طرف مڑ گیا، کافی سمجھدار تھے اور حیران تھے پاکستانی پالیسیوں پہ۔ انکے خیال میں، ایسے حالات میں جبکہ پاکستان اندرونی دہشت گردی کے باعث کھوکھلا ہوچکا ہے اور امریکہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کو دہشت گردی کے معاملہ میں کان سے پکڑے ہوئے ہے، پاکستان کو انڈیا سے مزاحمت ترک کرکے اپنی تمام توجہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پہ مرکوز کردینا چاہئے اور چین کو بھول جانا چاہئے، کیونکہ خطے میں
pax americana
یا بقول انکے
pax indica
نافذ ہوچکا ہے۔ یہ کم و بیش وہی بیانیہ تھا جو آج ہمارے لبرل حضرات خشوع اور خضوع سے ہمیں سناتے نظر آتے ہیں۔ مجھے اختلاف تھا۔ میرا استدلال یہ تھا کہ دہشت گردی کے خلاف کوئی جنگ ہو ہی نہیں رہی، نہ کوئی سنجیدہ ہے، یہ زبانی جمع خرچ ہے اور ایک منافقانہ پراکسی وار موجود ہے جو مفادات کے ٹکراؤ کے باعث ہے۔ جہاں امریکہ کی طویل المدتی حکمت عملی یہ ہے کہ اول، چین کو گوادر تک پہنچنے سے روکا جائے( اس وقت سی پیک کا اعلان نہ ہوا تھا لیکن چین نے شاہراہ قراقرم کو دو رویہ تمام موسموں میں کھلی شاہراہ بنانے کا اعلان کردیا تھا جو مستقبل کے رخ صاف بتا رہا تھا) دوم، امریکہ براستہ افغانستان وسطی ایشیا تک تجارتی راستہ قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ نہ صرف وہاں کے وسائل تک رسائی ہو بلکہ چین کے گرد گھیرا بھی مکمل کیا جاسکے۔ پاکستان کو بنیادی طور پہ کسی تجارتی راستے سے انکار نہیں لیکن چین کی قیمت پہ نہیں۔ وہ چین کے خلاف فریق بننے پہ رضامند نہیں۔ یہ جھگڑے کی بنیاد ہے۔ آخر کار تینوں فریق کسی معاہدہ پہ پہنچیں گے جس کے لئے امریکہ کو دشواری نہ ہوگی۔ اس کے میڈیا میں پاکستان کے خلاف یکطرفہ بیانیہ اور مخالفت موجود نہیں۔ البتہ انڈیا کو اس مرحلہ پہ بے حد دشواریوں کا سامنا ہوگا جس میں سر فہرست خود انڈین میڈیا کا پاکستان کے بارے میں یکطرفہ مخالفانہ رویہ ہے جو خود انڈین پالیسی سازوں کے پاؤں کی زنجیر ثابت ہوگا۔

ہوا یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد انڈین میڈیا کا پاکستان کے بارے میں رویہ جن مفروضات کا شکار ہوگیا وہ کچھ یوں تھے۔ پاکستان دہشت گردی کا شکار ہوکے ناکام ریاست بن چکا ہے۔ انڈیا کا امریکہ سے اتحاد یا دوستی اسی طرح دائمی اور غیر مشروط ہے جس طرح سوویت یونین سے تھی۔ لہذا پاکستان کے ساتھ برابری پہ بات کرنا ممکن نہیں۔ ممبئی حملوں کے بعد یہ سوچ پیدا ہوئی کہ آئندہ پاکستان کے ساتھ بات ہوئی بھی تو صرف دہشت گردی پہ کی جائے گی جس طرح ایک ہیڈ ماسٹر سکول بوائے سے کرتا ہے۔ انڈین میڈیا پہ فارن پالیسی کے معاملہ میں ریاستی کنٹرول بہت مضبوط ہے۔ سوال ذہن میں آتا ہے کہ اتنا یکطرفہ بیانیہ آخر کیوں اختیار کیا گیا؟ اس کا ایک ہی جواب سمجھ آتا ہے کہ ریاستی پالیسی ساز افغانستان میں امریکی کامیابی پہ اتنا یقین کرگئے تھے کہ انہوں نے اس کے برعکس صورتحال پہ سنجیدگی سے غور ہی نہ کیا اور کوئی متبادل طویل المدتی پالیسی کی تیاری نہیں کی۔ اگر ایسا ہے تو صورت حال مزید الجھتی جائے گی۔ انہوں نے اپنی طویل المدتی حکمت عملی وضع کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ کسی قسم کے تزویراتی معاہدہ کا امکان ہی خارج کردیا تھا۔ جس بناء پہ آج مشکل پیش آرہی ہے علاقائی پالیسی کو آگے بڑھانے میں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مودی کی موجودگی یقیناً مسائل میں اضافہ کا مؤجب ہے لیکن مودی واحد مسئلہ نہیں۔ ان کی نظر میں مسائل گوناگوں ہیں۔ انکا نظریہ یہ تھا کہ فی الوقت چاہے پاکستان نیو کلیر اور میزائل میں ان سے آگے ہے لیکن اپنی بڑی معیشت، بہتر معاشی شرع نمو اور پاکستان کے اندر بدامنی کی وجہ سے آخر کار طاقت کا توازن ان کے حق میں اتنا پلٹ جائے گا اور وہ علاقائی بالادستی حاصل کرسکیں گے، لیکن سی پیک نے اس امکان کو معدوم کردیا ہے جس پہ ان کا شدید ردعمل سامنے ہے۔ انہوں نے طاقت کی مساوات میں فرض کرلیا تھا کہ جس طرح وہ چین کے خلاف امریکہ کے ساتھ ہیں اسی طرح پاکستان کے خلاف امریکی حمایت انہیں ہمیشہ میسر رہے گی۔ لیکن ۲۰۱۳ میں جب امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کا عندیہ دیا تو ان کی پریشانی بڑھنا شروع ہوگئی۔ وہ خوب سمجھتے ہیں کہ اس کا حتمی نتیجہ افغانستان میں امن اور بذریعہ افغانستان وسطی ایشیا کی طرف تجارتی راستے اور پٹرولیم کی پائپ لائنوں کی صورت میں نکلے گا اور پاک انڈیا معاملات میں غیرجانبداری امریکہ کی ضرورت بن جائے گی۔ اس پہ وہ قطعاً تیار نہیں۔ کشمیر میں یکدم ابھرنے والی تحریک نے جلتی پہ تیل کاکام دیا ہے۔ مودی اگر موجود نہ بھی ہوتا تو ان کے لئے یہ مسائل موجود تھے۔ پاکستان کے ساتھ کسی بھی تزویراتی معاہدہ کو وہ پہلے ہی خارج از امکان قرار دے چکے تھے اس لئے ان کا جوابی ردعمل تھا افغانستان میں امریکہ کی جگہ لینا اور افغانستان ، پاکستان کی متحاربیت کی پالیسی کو آگے چلائے رکھنا۔ یقیناً یہ ایک معاشی طور پہ بھی مہنگا سودا ہے اور تزویراتی طور پہ بھی۔ کیونکہ گمان یہی ہے کہ امریکہ نے اڈوں کے استعمال کے معاہدہ کے عوض یہ معاملہ طے کیا ہے۔ یہ معاہدہ انڈیا کو واضح طور پہ امریکی کیمپ میں شامل کرتا ہے اور انڈیا نے آج تک روس اور امریکہ کے درمیان جو نازک توازن اور غیر جانبداری کا رویہ رکھا تھا وہ تبدیل ہوگیا ہے جس کے نتیجہ میں روس اور پاکستان کی قربت مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ انڈیا کے رویہ کی جھنجھلاہٹ، غصہ اور تلخی یہ ظاہر کرتی ہے کہ کوئی طویل المعیاد پالیسی موجود نہیں اپنے علاقائی قومی مفاد کو مثبت طور پہ آگے بڑھانے کی ، اگر ہے تو محض کسی نہ کسی طرح پاکستان کا راستہ روکنا جس کے لئے ٹیکٹیکل حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔ اس لئے غصہ موجود ہے طویل المدتی پالیسی کی غیر موجودگی کا نتیجہ میں پہل یا initiative دوسروں کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے اور آپ ہر initiative پہ ردعمل دے رہے ہوتے ہیں اور الجھاؤ بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان کا پرسکون اور ہیجان سے خالی رویہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ حالات جیسے بھی سہی اس کی طویل المدتی پالیسی درست سمت میں ہے۔ لیکن اسے محتاط ضرور رہنا ہوگا تاکہ انڈیا کی طرف سے کوئی شدید ردعمل حالات کو خرابی کی طرف نہ لے جائے۔ کشمیر بارڈر پہ پیش آنے والا واقعہ ردعمل کی ہی ایک مثال ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ ان مسائل کے حل کی کوشش میں انڈیا کی طرف سے کیسے کیسے ردعمل آسکتے ہیں۔ انڈین اسٹیبلشمنٹ کے فاتحانہ رویہ کے علاوہ انڈین میڈیا کا رویہ مستقبل میں مسائل پیدا کرے گا وہ پاکستان کے بارے میں ایک شدید جارحانہ سوچ سے باہر آنے کو تیار نہیں جو بیانیہ انہوں نے پاکستان کے بارے میں اختیار کیا تھا ، حقائق خواہ کچھ ہوں وہ اس سے باہر نکلنا اب شائد ان کے بس میں ہی نہیں۔ جہاں صورتحال یہ ہے کہ ادھر پاکستان میں سی پیک پہ تیزی سے کام ہورہا ہے اور ادھر ان کا میڈیا عوام کو یہ بتانے میں مصروف ہے کہ پراجیکٹ متنازعہ ہوکے کھٹائی میں پڑچکا ہے۔ خواہش اور خبر میں فرق بہت بڑھ چکا ہے اور یہ رویہ بھارتی عوام میں جنگی جنون پیدا کرتا ہے۔ مودی کی موجودگی البتہ اس پہ مستزاد ہے کیونکہ وہ پاکستان کی طبیعت ٹھکانے لگانے کے وعدہ پہ برسراقتدار آیا تھا۔ پاکستان کو بہرحال اعتدال اور توازن کے ساتھ جنگی بخار میں مبتلا ہوئے بغیر ہی اس چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply