جمیعت علماء اسلام کا صد سالہ

علماء اسلام کی پاکستان میں سیاسی جدوجہد کی تاریخ بہت لمبی ہے۔ اور یہ برطانوی ہند میں علماء کی آزادی کے لئے کی گئی جدوجہد سے شروع ہوتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ سیاسی فرنٹ پر علماء پہلی بار تب نمودار ہوئے جب شاہ عبدالعزیز نے ۱۸۰۳ میں ایک فتویٰ کے زریعے برطانوی ہند کو دارالحرب قرار دیا۔بربرہ مٹکاف جنہوں نے دارلعلوم دیوبند اور اس کی تعلیمی تحریک پر تحقیق کی ہے، کا خیال ہے کہ اس فتویٰ نے آنے والے دنوں میں علمی، عسکری و سیاسی تحریکوں پر دور رس نتائج مرتب کئے۔اس فتویٰ نے علماء پر زور دیا کہ اگر حکومت اسلامی قوانین کے مطابق امور ریاست نہیں چلا سکتی تو ان کا فرض ہے کہ وہ عوام کی رہنمائی کرنے کے لئے آگے ہوں۔علماء اگرچہ ریاستی عملداری کے بغیر عام عوام کو زیادہ رہنمائی تو فراہم نہیں کر سکتے لیکن وہ ان کو سماجی و معاشرتی رویوں، معاشی لین دین،خاندانی معاملات اور وراثت کے اسلامی قوانین کے متعلق ضرور توجہ دیں اور رہنمائی فرمائیں۔ اسی طرح عام مسلمان جو پہلے ہر قسم کے حالات میں اسلامی حکومت کی طرف دیکھا کرتے تھے اب علماء کی طرف دیکھنے لگے۔یوں رفتہ رفتہ معاشرے میں علماء کا کردار بڑھتا گیا۔
۱۸۵۷ کی جنگ آزادی میں بھی علماء نے اہم کردار ادا کیا مگر ناکامی نے ان کو اپنی سٹریٹیجی تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔انہوں نے محسوس کیا کہ فی الحال انگریزوں سے جنگ کے زریعے آزادی حاصل کرنا محال ہے۔مسلمانوں کی بطور قوم برطانوی ہند میں بقاء کے لئے کوئی اور طریقہ اپنانا ہوگا۔ جس کے لئے سب سے پہلے ضروری تھا کہ مسلمانوں کی بنیادی مذہبی معاملات میں رہنمائی کے لئے کوئی ادارہ ہو، جہاں پر لوگ مذہبی تعلیم بھی حاصل کریں۔ چنانچہ ۱۸۶۷ میں دیوبند کی بنیاد رکھی گئی۔
مولانا محمودالحسن کے مطابق دیوبند صرف تعلیم کی ترویج کے لئے نہیں بنایا گیاتھا۔ بلکہ اس کے ذمہ ایک مقدس اور آفاقی ذمہ داری تھی۔ کیا مولانا نانوتوی نے یہ مدرسہ صرف تعلیم و تعلم کے لئے بنایا تھا؟ بلکل نہیں۔ یہ مدرسہ میری آنکھوں کے سامنے بنا اور اس کی بنیادی وجہ مسلمانان ہند کو ۵۷ کے نقصان کے ازالے کے لئے تیار کرنا تھا۔(سوانح قاسمی)
محقق ڈی۔آر۔گویال کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں علماء ہی وہ پہلے لوگ تھے جن کو انگریزوں کی تجارت کے لئے آمد اوراس کے متوقع نتائج کا ادراک تھا۔ انہوں نے ہی سب سے پہلے ہند کے لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول کروانے کی کوشش کی تھی۔اور یہ وہ ہی تھے جنہوں نے پہلے پہل آزادی کی خواہش اور آرزو کو جلا بخشی۔
باچا خان نے ۱۹۶۷ میں اپنے دورۂ دیوبند کے موقع پر فرمایا کہ اس ادارے سے منسلک لوگوں کو برطانوی ہند میں آزادی کے لئے لڑنے والے تمام دوسرے لوگوں سے آزادی کی زیادہ فکر لاحق تھی۔
تاہم دیوبندی فکر سے منسلک علماء ۱۹۱۹ تک اپنے لئے کوئی باقاعدہ سیاسی تنظیم نہ بنا سکے۔ عمومی قسم کے کئی مسائل میں تب تک دیوبند نے کانگریس کے موقف کی حمایت کی۔ تاہم نہ کسی کو اس میں شامل ہونے کی ترغیب کی اورنہ کسی کو اس میں شامل ہونے سے روکھا۔ اس کی بنیاد شاید مولانا گنگوہی کا وہ فتویٰ بنا جس میں مسلمانوں کو ان تمام معاملات میں ہندوؤں سے تعلق رکھنے کو مباح قرار دیا گیا تھا جس سے مسلمانوں کے مذہبی معاملات پر کوئی اثر نہ پڑتا ہو۔
مولانا محمد میاں کے مطابق سیاسی حمایت یا مخالفت کے بارے میں دیوبند کا ایک ہی اصول تھا اور وہ تھا برطانوی سامراج سے آزادی۔ اس سے کم پر علماء کبھی بھی مطمئن ہونے والے نہیں تھے۔ اسی لئے جب تک کانگریس نے مکمل آزادی کے لئے آواز نہیں اٹھائی تھی علماء نے ان کی حمایت نہیں کی تھی۔ اور مسلم لیگ کا تو سرے سے ایسا کوئی ارادہ تھا ہی نہیں۔ وہ تو ابتداء میں مسلمانوں کے لئے چند ایک حقوق کی بات کر رہے تھے۔
دوسری طرف ۱۹۱۶ تک علماء ایک پرامن تبدیلی کے متعلق زیادہ پرامید نہیں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ہندوستان کو صرف انقلاب کے زریعے ہی آزاد کیا جا سکتا ہے۔ اور اس سلسلے میں تحریک ریشمی رومال ان کی آخری کوشش اور امید تھی جو کہ کامیابی سے ہمکنار نا ہو سکی۔ اس تحریک کی ناکامی نے علماء کو پرامن سیاسی جدوجہد کی طرف سوچنے پر مجبور کر دیا۔ اس سلسلے میں تحریک خلافت نے بھی اپنی الگ سیاسی جماعت کی افادیت علماء پر واضح کر دی۔ اور وہ آخر کار ۱۹۱۹ میں اپنی سیاسی جماعت بنانے کے لئے میدان میں کود پڑے۔ نومبر ۱۹۱۹ میں مولانا عبدالباری کی زیر صدارت اجلاس میں جمیعت علماء ہند کی بنیاد رکھی گئی۔اسی اجلاس میں جمیعت کے مندرجہ ذیل اغراض و مقاصد کا تعین بھی کیا گیا۔
۱۔مسلمانوں کو ان کے سیاسی،سماجی،معاشی،معاشرتی اور دوسرے مسائل میں رہنمائی فراہم کرنا۔
۲۔اسلام، مرکز اسلام(حجاز مقدس)، اسلامی تہذیب و ثقافت اور روایات کی حفاظت کرنا۔
۳۔ہندوستان کی مکمل آزادی کے لئے کوشش کرنا۔
۴۔ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کے حصول اور تحفظ کے لئے کوشش کرنا۔
۵۔علماء کو متحد کرنا اور ان کو ایک ہی سیاسی پلیٹ فارم پر منظم کرنا۔
۶۔ہندوستان کے مقامی غیر مسلم گروہوں کے ساتھ اچھے اور برادرانہ تعلقات استوار کرنا۔اور ان کے حقوق کے لئے آواز اٹھانا۔
۷۔ہندوستان کے مسلمانوں کے ضرورت کے لحاظ سے ملک بھر میں محکمہ شریعہ کی بنیاد رکھنا۔
۸۔اسلام کی صحیح تشریح اور ترویج کے لئے نا صرف ہندوستان بلکہ دوسرے ممالک میں تبلیغی سرگرمیاں شروع کرنا۔
انہی بنیادی اغراض ومقاصد کے ساتھ جمیعت علماء ہند وجود میں آگئی۔ تاہم وطنیت اور قومیت سمیت دوسرے کئی بنیادی ایشوز پر مسلم لیگ کے ساتھ اس کے اختلافات بھڑتے گئے۔اور آخرکار ہندوستان کی تقسیم کے مسئلے پر جمیعت خود تقسیم کا شکار ہو گئی۔جمیعت علماء ہند میں سے وہ علماء جو برطانوی ہند کی تقسیم کے متعلق مسلم لیگ کے ہم خیال تھے انہوں نے۱۹۴۵ میں اپنی الگ کل ہند جمیعت علماء اسلام کی بنیاد رکھی۔ اور پاکستان بنانے کے لئے قائداعظم کے دست راست ٹہرے۔تاہم دونوں دھڑوں کے درمیان ایک دوسرے کے لئے احترام کا رشتہ نا ختم ہوا نا کم۔ پاکستان کے علماء ابھی تک اپنی رہنمائی کے لئے جمیعت علماء ہند اور دیوبند کی طرف ہی دیکھتے ہیں۔
تقسیم کے بعد جمیعت علماء ہند نے پارلیمانی سیاست کو خیر باد کہ دیا اور درس و تدریس اور تبلیغ و ترویج میں مشغول ہو گئے۔ جمیعت علماء اسلام کو علماء دیوبند کی سیاست وراثت میں ملی۔اور آج اس کے ۱۰۰سال پورے ہو رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جمیعت علماء اسلام اسلاف کے نقش قدم پر چلے اور اس قطعہ ارض میں بسنے والے تمام انسانوں کی بلا تفریق خدمت کے اصول کو دوبارہ زندہ کرے۔ فرقہ پرستی اور مذہبی تعصب کی فضا کو ختم کرنے کے لئے اپنی توانائیاں بروئے کار لائے۔
جمیعت علماء اسلام کو صد سالہ مبارک ہو۔

Facebook Comments

واجد محمود خٹک
سیاسیات کا طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply