تیری آواز مکے مدینے

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بات چل پڑی قومی ریاستوں اور مذہبی ریاستوں کی. لوگ اپنے اپنے موقف پر دلائل کا سرمایا لٹا رہے تھے کہ فقیہ شہر نے فقاہت کا زوردار دهماکا کر کے قومی ریاستوں سمیت مذہبی ریاستوں کو بھی اڑا کر رکھ دیا. دلائل کی وہ دهاک بٹھائی کہ ریاست کا اعتباری وجود اپنا اعتبار کھو چلا. جب حادثہ تھما تو تب ہم جیسے کئی بے خبروں کو خبر ہوئی کہ صاحبو اسلامی و قومی میں کیا الجھے بیٹھے ہو اسلام میں سرے سے ریاست کا ہی کوئی تصور نہیں یعنی دہن کا ذ کر کیا یہاں سر ہی غائب ہے. احباب پوچھیں گے کہ اسلام میں کہاں ریاست کی نفی کی گئی؟ سو ان سے پیشگی عرض ہے کہ اسلام محض خدا و رسولﷺ کے کہے سے وجود نہیں پاتا بلکہ فقیہ شہر کی فقاہت کی شمولیت بنا اسلام، اسلام نہیں رہتا. احتیاط کا تقاضہ بہرحال یہی ہے کہ فقہی نکتہ آفرینیوں کو بھی اسلام ہی لکھا اور پکارا جائے.
حالیہ دنوں ریاست کا موضوع پهر چِھڑ کر رہا. چل پڑی باتوں میں اک سوال یہ اٹها کہ دیکهیے مگر۔۔ اگر قومی ریاست بغاوت کے سبب سے قائم ہو جائے تو پهر کیا بنے گا کالیا؟ عرض کیا بغاوت و فساد ناجائز و گناہ ہے پر مگر۔۔ اگر بغاوت کے نتیجے میں ریاست قائم ہو ہی جائے تو نظم اجتماعی سے متعلق احکام اسی سے متعلق ہو جائیں گے. اس پر چند مثالیں بهی چپکائی گئیں کہ سبب ناجائز ہونے کے باوجود وجود پا جانے والی حقیقت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے. اس سب میں کہیں یہ انکشاف نہیں کیا گیا کہ قومی ریاستیں ناجائز بچے کی مانند ہیں۔ وہ بات کہی بهی گئی تو سیاق و عنوان واضح ہے کہ سوال کے جواب میں اور بغاوت کے ذریعے قائم ہونے والی ریاستوں کے زیرعنوان کہی گئی. وہ بهی خاص بیچ اس مسئلہ کے کہ سبب ناجائز ہونے سے ریاست کو ریاستی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا. اردو زبان میں لکهی اس پوسٹ میں کہاں یہ کہا گیا کہ سرے سے قومی ریاست ہی مانند ناجائز بچے کے ہے؟ کیا لازم ہے کہ ہر قومی ریاست بغاوت سے ہی وجود پائی ہوئی ہو؟ لیکن۔۔ مگر پهر ہوا یوں کہ چلتے چلتے فقاہت اس پوسٹ میں جا گهسی تو نتیجہ یہی نکلا کہ قومی ریاست بطور ناجائز بچہ۔۔ ایسی وارداتوں سے پہلے سابقہ پڑ نہ چکا ہوتا تو آپ کی طرح میں بهی حیران ہو جاتا. فقیہ شہر کی فقاہت پهر فقاہت کیا جو پوسٹوں سے ان کہی دریافت کر سکنے تک کے ہنر سے بے خبر ہو.
فقیہ شہر کا پرجوش ذوق ان دنوں مناظرانہ آہنگ کے دوش پر محو رقص ہے. فقہی مجلس میں قانون کے عین مطابق کمنٹ بار میں داد و دهمال کا عالم بهی ہو جاتا ہے. ہلکی پهلکی موسیقی کے جواز میں فقیہ شہر کو بهی کیا کلام ہو سکتا ہے؟ مگر صاف ظاہر ہے کہ اس کی ذمہ داری دهمال بازوں کے سوا کسی پر عائد نہیں ہوتی.
دشمن کہتے ہیں معاملہ غامدی فوبیا کا بهی ہو سکتا ہے. ان کے منہ میں خاک سچ یہ ہے کہ غلط کہتے ہیں. جس میں دم ہے بتائے کہی گئی بات کہاں فقہ و قانون کے عین مطابق نہیں؟ خوش آئند مگر اس سب میں یہ ہے کہ مزاج شیخ ، طنز کو برا منانا، برا ماننے کا ہے. ہمارے اک بد ذوق یار نے شیخ کے چند جملوں کا برا بنا کر سچ یہ ہے کہ بہت برا کیا تها. اتنی خشک مزاجی بهی کیا ہوئی کہ بندہ جملہ بازی کا ہنر بهی مرتے دم تک نہ آزما سکے. علمی مکالمے میں وہ لطف کہاں جو پرخچے اڑانے کی آواز مکے مدینے پہنچا کر مزا لینے میں ہے. جن کی عمر صرف علمی مزاج کی پاسداری میں گزری ہو وہ اس لطف سے کیونکر آشنا ہو سکتے ہیں؟ فقیہ شہر کی طبیعت کی روانی دیکهیے کہ اک دوست کے سوال پر مجھ سے تفنن سرزد ہوا، خدا گواہ کہ اس سمے کہیں فقیہ شہر کا گماں بهی گزرا ہو تو، مگر شیخ نے بااصرار کہا کہ یہ سب خاص واسطے میرے سوالات کا مذاق اڑانے کے ہوا. یاخدا یا رسول بے نظیر بے قصور. خیر برا منائے بغیر شیخ کو وضاحت دی گئی، سائل کو حاظر خدمت کیا گیا پر تاحال نظر شیخ نہ ملزم پر پڑی نہ سائل حقیقی پر. احساس ہے دارالحرب میں جب گئے ہیں تو مشاغل سے فراغ آساں نہ ہوتا ہو گا. مزاج شیخ سے شہ پا کر بات کہاں جا نکلی، ہاں تو صاحبو !
مکرر عرض ہے کہ ریاست کیسے وجود میں آئے؟ ایک ہی ریاست ہو یا کئی ہوں ؟ یہ اصلاً مذہب کا موضوع نہیں. یہ معاملہ تمدن سے جڑا ہے سو تمدن کے لحاظ سے ہی ریاستیں بنتی اور شکلیں بدلتی رہیں گی. مذہب کا تعلق اس معاملے میں یہاں ہے کہ مسلمانوں کے نظم اجتماعی سے متعلق ہدایات پر عمل کا حق کس کے پاس ہو گا؟ سو مکرر عرض ہے کہ یہ حق جدید دور میں قومی ریاست ہی کے پاس ہو گا . افراد کو ریاست میں رہتے ہوئے خود ان احکام کا نفاذ کرنے کی کسی طور اجازت نہیں ہے. وجہ واضح ہے کہ معاملہ نظم اجتماعی یعنی ریاست سے نکلا تو خدا کی دهرتی فساد سے بهر جائے گی. سوال پهر اٹها دیتے ہیں کہ مگر۔۔ اگر قومی ریاست بغاوت کے نتیجے میں بن گئی ہو تو؟ سہ مکرر عرض ہے کہ جب وہ یوں ناجائز ذریعے سے بن ہی جائے گی تو بہرحال نظم اجتماعی سے متعلق احکام معطل کیے جائیں گے اور نہ ہی افراد کے سپرد کر لیے جائیں گے. وہ بہرحال ریاست ہی سے متعلق ہوں گے اگرچہ وہ ناجائز ذرائع سے قائم ہو گئی ہو. اس کہے میں کون کہتا ہے کہ غلطی کا امکان نہیں؟ یہ امکان جس کے طفیل بهی امر واقعہ بن پایا ہمیں بصد شکریہ قبول کر لینے میں کچھ مانع نہ ہو گا. ان شاء اللہ. اس کہے سے بهی بہت کچھ نکال دکهایا جا سکتا ہے جیسے کہ پہلے کہے سے بہت کچھ دریافت کر دکهایا گیا. اب مزید اپنے کہے سے نکالے گئے پہ کیا کہیے کہ خدا کا کہا اس سے کہیں زیادہ مظلوم ہے.
میری آواز مکے مدینے
رہے نام اللہ کا
یار زندہ صحبت باقی!

Facebook Comments

تہامی بشرعلوی
بندہ پی ایچ ڈی میں مصروف ہے.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply