دہشتگردی

اسلم ایک مزدور کے گھر میں پیدا ہوا، وہ چار بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا- آنکھ تو اس نے ویسے ہی جب سے کھولی تو قدرت کا اس سے انتقام دیکھا لیکن اس انتقام کی انتہا تب ہوئی جب اس کے باپ کے کمزور کندھے ان کا مزید بوجھ اٹھانے کے قابل نہ رہے اور وہ اس کسمپرسی کی زندگی کو خیرباد کہہ گیا۔ ا سلم ابھی آٹھویں جماعت میں پڑھنے والا بچہ ہی تو تھا کہ وہ اس دردناک زندگی سے بھی دھتکار دیا گیا اور مزید درد ناک شب و روز اس کا مقدر ٹھہرے، رشتہ داروں، دوست احباب نے بھی کنارا کشی اختیار کر لی۔بھوک،افلاس ،مستقل ذلت اس کا مقدر بن چکی تھی۔ہم دونوں ایک ہی گاؤں کے باسی ہونے کے ساتھ دوست بھی تھے۔
اس لیئے میں اس کے حالات سے بخوبی واقف تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے میرا دوست زندگی سے نبردآزما تھا اور میں بے بس تھا۔اس کا سکول بھی چُھوٹ چکا تھا مجبوراً اسے ایک مِل میں نوکری مل گئی، اس کے باوجود اس کے حالات میں کوئی تبدیلی نہ آئی بلکہ وہ دوستوں سے بھی دور ہوتا گیا۔۔تبھی مین نے ایک دن اس سے بات کرنے کی ٹھانی، جس کے جواب میں وہ پھٹ پڑا۔۔اور انتہائی تلخی سے بولا ۔۔کیا بات کروں تم سے؟ کہاں سے وقت لاؤں دوستو ں کے لیئے۔۔؟ پیٹ خالی،تن پر کپڑا نہیں ،کرائے کا مکان۔۔ گاؤں کے اوباشوں کی نظریں ہر وقت میرے گھر کا طواف کرتی ہیں اور تم چاہتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ بیٹھ کر باتیں کروں۔۔ وہ کچھ دیر خاموش نظروں سے میری طرف دیکھتا رہا اور چل گیا۔۔بعد مین پتا چلا کہ وہ لوگ گاؤں بھی چھوڑ گئے ہیں ۔۔
کچھ عرصہ بعد میرا شہر جانا ہوا جہاں میری میری اچانک اسلم سے ملاقات ہوگئی،وہ کافی بدلا ہوا سا محسوس ہوا۔۔پوچھنے پر بتانے لگا کہ وہ اب ایک تنظم کے لیئے کام کرتا ہے۔۔۔مجھے حیرت کا جھٹکا لگا۔میرے لاکھ سمجھانے کے بعد بھی اسے کوئی اثر نہ ہوا غصے میں وہاں سے چلا گیا۔۔اس بات کو زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ گاؤں میں پھیلی خبر نے میرے ہوش اُڑا دئیے۔۔۔اسلم ایک پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا۔۔۔آج بھی سوچتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ غلط کون تھا اسلم؟ یہ سماج ۔۔؟جس نے اسے دہشتگرد بننے پر مجبور کیا۔

Facebook Comments

سلمان سعید
زندگی کی حقیقت کی تلاش میں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply