• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پنجاب حکومت اور نیب ۔۔آرٹیکل 5کیا کہتا ہے؟…آصف محمود

پنجاب حکومت اور نیب ۔۔آرٹیکل 5کیا کہتا ہے؟…آصف محمود

پنجاب حکومت نیب کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں تو آ گئی ہے لیکن کیا اسے معلوم ہے آئین کے آرٹیکل 5 اور سپریم کورٹ کے 2013 میں دیے گئے دو فیصلوں کی روشنی میں اس کے کیا مضمرات ہو سکتے ہیں؟
پنجاب حکومت کی بنائی گئی پراسرار کمپنیوں میں 80 ارب کی کرپشن کی ہوشربا داستانیں جب سامنے آنے لگیں تو نیب نے ان پر نوٹس لے لیا۔حسب روایت پارسائی کے دعووں کے ساتھ وزیر اعلی سامنے آئے اور ایک پریس کانفرنس میں فرمایا کہ نیب کو مکمل معلومات فراہم کی جائیں گی کیونکہ ہمارا دامن صاف ہے ۔روایت یہ ہے کہ اس کے بعد خود وزیر اعلی ہی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں یہ تجویز دی گئی کہ نیب سے اس سلسلے میں ہر گز تعاون نہ کیا جائے۔بعد کے واقعات گواہی دے رہے ہیں کہ یہ روایت معتبر تھی کیونکہ نیب ایک یا دو دفعہ نہیں چار مرتبہ باقاعدہ خط لکھ کر ان کمپنیوں کی تفصیلات مانگ چکی مگر کسی نے ان خطوط کو اس قابل نہیں سمجھا کہ ان کا جواب دے۔چنانچہ یہ رویہ دیکھ کر ایک روز چیئر مین نیب پھٹ پڑے اور کہا پنجاب میں اداروں کا عدم تعاون ناقابل برداشت ہے۔انہوں نے یہ تنبیہہ بھی کی کہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کا احتساب ہو گا کیونکہ ملک ایک ہے اور لوٹنے والے زیادہ۔
نزلہ اور زکام تو پہلے ہی تھا ، چیئر مین نیب کے اس بیان سے جمہوریت کو گویا کالی کھانسی بھی لاحق ہو گئی ۔پنجاب حکومت کے ترجمان نے کہا کہ چیئر مین نیب کا بیان خلاف حقیقت ہے۔رانا ثناء اللہ صاحب نے فرمایا کہ چیئر مین نیب کو کوئی شکوہ تھا تو بھی اداروں کے درمیان رابطہ پریس کانفرنس کے ذریعے نہیں ہونا چاہیے تھا ۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ وزیر قانون نے چیئر مین نیب کی پریس کانفرنس کے خلاف اس اقوال زریں کا اظہار بھی ایک پریس کانفرنس ہی میں کیا۔وہ غالبا یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ چیئر مین نیب کو پریس کانفرنس میں یہ ’ قومی راز‘ فاش نہیں کرنا چاہیے تھا بلکہ اس کے لیے دو تین سو مزید خطوط لکھ کر نیب ہیڈ کوارٹر میں دھوپ میں کرسی ڈال کر یہ ایک کے بعد دوسرے ڈی جی نیب کو طلب کر کے یہ پوچھتے رہنا چاہیے تھا کہ ’’ بھائی جان!کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں‘‘۔یہ بھی ویسے وزیر قانون کی میانہ روی ہے کہ انہوں نے چیئر مین نیب کے خلاف اس قومی رازکو فاش کر کے جمہوریت کو خطرے میں ڈالنے کی پاداش میںآفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرانے کا فیصلہ نہیں کیا۔
پنجاب حکومت نے یہ تو کہہ دیا کہ چیئر مین نیب غلط بات کہہ رہے ہیں لیکن یہ کسی نے نہیں بتایا کہ چیئر مین نیب غلط بات کیوں کریں گے۔اگر حکمرانوں کو شرح صدر ہے کہ ہر ادارہ ان کے خلاف کسی سازش کا حصہ ہے تو وہ ایک قانون بنا لیں کہ آج سے ہر ادارے کی سربراہی جسٹس قیوم صاحب کے پاس ہو گی اوران کی معاونت رانا مقبول صاحب کیا کریں گے۔پاکستان کی تاریخ میں غالبا یہی دو ہستیاں ایسی دکھائی دیتی ہیں جن کی دیانت پر اہل اقتدار کو کامل یقین ہے۔
نیب نے البتہ پنجاب حکومت کے موقف کو بیچ بازار میں بے نقاب کر دیا۔ترجمان نیب کے مطابق پنجاب حکومت کا موقف تضادات کا شکار ہے۔ وزیر قانون رانا ثناء اللہ صاحب نے دو نومبر کو کہا کہ 61کمپنیوں میں سے 10 بند ہیں۔اس کے بعد کہا کہ کمپنیوں کی تعداد 53ہے جن میں سے 15غیر فعال اور 2بند ہیں۔پنجاب ھکومت کے ترجمان نے کہا کہ ان کمپنیوں کی تعداد 47 ہے۔اسی طرح ریکارڈ کے بارے میں وزیر اعلی اور ان کے ترجمان دونوں نے کہا کہ مکمل ریکارڈ نیب کو دیا جا چکا ہے۔جبکہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ 47کمپنیوں کا ریکارڈ نیب کے حوالے کیا جا چکا ہے۔چیئر مین نیب بھی سوچتے ہوں گے کہ
’’ کس کا یقین کیجیے ، کس کا نہ کیجیے
لائے ہیں بزم ناز سے یار خبر الگ الگ‘‘
پنجاب حکومت کا یہ رویہ ایک طرف اور وفاقی حکومت اور اس کے وزراء کا رویہ دوسری طرف۔کوئی نیب سے تعاون نہیں کر رہا۔کوئی عدالتوں کو دھمکیاں دے رہا ہے، کوئی ججوں کی کردار کشی میں مصروف ہے ، ریاستی مشینری اور وزراء قانون کی بجائے ملزم کے پلڑے میں وزن ڈالے ہوئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا قانون اور دستور اس معاملے میں کوئی رہنمائی کرتے ہیں یا ان رویوں کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا جائے؟
آئین کے آرٹیکل 5میں اس سوال کا جواب ہے۔ذرا اس آرٹیکل کو اچھی طرح سمجھ لیجیے۔اس میں دو اصول طے کر دیے گئے ہیں۔
1۔ریاست سے وفاداری ہر شہری کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
2۔آئین اور قانون کی اطاعت پاکستان میں موجود ہر شہری کا بنیادی فریضہ ہے۔
اس آرٹیکل کی سپریم کورٹ نے گویا شرح بیان کر دی جب اس نے 2013میں سید محمود اختر نقوی بنام وفاق کیس میں لکھا کہ سول سرونٹس کا قانون کے مطابق کام کرنا چاہیے۔وہ کسی سیاسی انتظامیہ کے ماتحت یا اطاعت گزار نہیں ہیں۔فیصلے میں لکھا ہے ’’عدالت زور دے کر کہتی ہے کہ بے شک سول سرونٹس کو سیاسی انتطامیہ کی طرف سے گئی ہدایات اورپالیسی گائیڈ لائنز کے مطابق چلنا چاہیے تاہم دستور کے آرٹیکل 5 کے تحت دیگر شہریوں کی طرح ان کا بھی فرض ہے کہ وہ آئین اور قانون کا احترام کریں نہ کہ سیاسی انتطامیہ کی طرف سے دیے گئے غلط یا صحیح کسی بھی حکم کی بغیرسوچے سمجھے تعمیل اور اطاعت کرنا شروع کر دیں‘‘۔
نیب کسی کے خلاف تحقیقات کرے تو تمام ادارے اس کو متعلقہ دستاویزات اور ریکارڈ دینے کے پابند ہیں۔جو ادارے سیاسی انتظامیہ یعنی حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے قانون کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں یا جو سپریم کورٹ کے حکم پر قائم مقدمات میں ریاستی منصب پر ہونے کے باوجود کھلم کھلا ملزم کی اعانت کر رہے ہیں، یا جو عدالت کے حکم ہونے والی تحقیقات کے تفتیشی کو ڈرا دھمکا رہے ہیں وہ آرٹیکل 5 اورسپریم کورٹ کے اس فیصلے کو ایک بار پھر پڑھ لیں۔آرٹیکل 5کا آرٹیکل 6 سے بڑا گہرا تعلق ہے۔سپریم کورٹ نے مرحوم اصغر خان کے پیٹیشن میں قرار دیا کہ آئین سے وفادی کے بغیر ریاست سے وفاداری نہیں ہو سکتی۔یعنی جو آئین کا وفادار نہیں وہ ریاست کا وفادار نہیں۔اس فیصلے میں جہاں پر ویز مشرف کیس کے لیے رہنما اصول مل سکتا ہے وہیں بیوروکریسی کے ان افسران کے لیے سوچنے کا بڑا سامان ہے جو سیاسی آقاؤں کی خوشنودی کو ثواب دارین سے کم نہیں سمجھتے۔
چلتے چلتے آئین کا آرٹیکل 190 بھی پڑھ لیجیے۔ریاست کے تمام ادارے سپریم کورٹ کی معاونت کے پابند ہیں۔کوئی یہ سمجھتا ہے وہ گرد اڑا کر اور عدم تعاون کے ذریعے سپریم کورٹ کے حکم پر ہونے والی تحقیقات کے عمل کو سبو تاژ کر لے گا تو وہ اس آرٹیکل کاترجمہ کسی اچھے سے وکیل سے کروا کر خوب سمجھ لے اور بہتر ہے کہ پہلی فرصت میں ہی سمجھ لے۔
میں آرٹیکل 190 کی یہ شرح اس لیے بیان نہیں کر رہا کہ ڈر تا ہوں کہیں جمہوریت کو کالی کھانسی کے ساتھ ساتھ تپ دق اور تشنج بھی لاحق نہ ہو جائے۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply