آؤ افغانیوں کو مار ہی ڈالیں

سنہ دو ہزار سات کا زمانہ تھا اور میں پہلی بار پشاور سے بذریعہ سڑک کابل جارہا تھا۔ دل میں انجانے خدشات، خوف اور غیر یقینی کی کیفیات تھیں۔ میں نے پاکستان میں کافی لوگوں سے سنا تھا کہ افغانی بہت ظالم قوم ہے، یہ پیسے کیلئے اپنے بچوں تک کو بھی مار ڈالتے ہیں. جیسے ہی طورخم کے پاکستانی امیگریشن سے پاسپورٹ پر ٹھپہ لگوایا تو مرے مرے قدموں سے پاکستان کی سرزمین پر لگی زنجیر کو پار کیا۔ دل میں آیا کہ واپس بھاگ لوں، اگر پیٹ کی مجبوری نہیں ہوتی تو واللہ بھاگ بھی جاتا. جیسے ہی زنجیر پار کرکے افغانستان میں داخل ہوا تو ایک سپاہی بھاگتا ہوا میرے پاس آیا۔ میں سمجھا ابھی تھپڑ مارے گا مگر “ستڑے ماشے” کہہ کر ہاتھ ملایا اور فوراً سے پیشتر پوچھا کہ کہاں جارہے ہو؟ میں نے کانپتی آواز میں صرف اتنا کہا کابل. فوراً ہی معذرت خواہانہ انداز میں مجھ سے کہا کہ یار اگر برا نہ مانو تو رستے میں ایک گاؤں پڑتا ہے مارکو، وہاں میرے بیٹے کو یہ دے دینا اگر ناراض نہ ہو۔ فوراً دو درجن کے قریب مالٹے ہاتھ میں پکڑا دیئے.
امیگریشن دفتر پہنچا تو وہاں بارڈر پولیس کے بندے کرسیاں ڈال کر دھوپ سینک رہے تھے۔ سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا، میں نے پاسپورٹ اگے بڑھایا کہ انٹری کا ٹھپہ لگوانا ہے۔ ہنستے ہنستے انکے آفیسر نے کہا یار ویزہ کا جنھجٹ کیوں پالا ہے، پشتون بندے ہو، اپکا اپنا ملک ہے، خیر سامنے رجسٹر میں انٹری خود کر لو اور وہ سرخ والا دخول کا ٹھپہ لگوالو.
سنہ دو ہزار نو کی بات ہے۔ ٹیکسی میں جلال آباد سے کابل جارہا تھا اور ہمارے سامنے امریکن آرمی کی کانوائے جارہی تھی کہ اچانک ان کے اوپر خودکش حملہ ہوا۔ امریکیوں کی ایک گندی عادت ہے کہ کہ حملے کے بعد وہاں اردگرد ہر جاندار کو بھون ڈالتے ہیں۔ ہماری ٹیکسی رک گئی اور شدید فائرنگ میں ایک افغانی نے مجھ سے کہا کہ پاسپورٹ مجھے دے دو ورنہ یہ لوگ اپکو مار ڈالیں گے، کیونکہ امریکیوں کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ تم ایک پاکستانی ہو۔ کچھ امریکی ہمارے پاس آئے اور لاتوں بوٹوں سے اتنا مارا کہ ہم لوگ نڈھال ہوگئے. انکے فارسی ترجمان نے ہربندے سے شناخت مانگی، جس کے پاس میرا پاسپورٹ تھا وہ میرے آگے کھڑا ہوگیا کہ یہ میرا بیٹا ہے، بیمار ہے بول نہیں سکتا۔
سنہ 2010 میں قندھار سے ہلمند جارہا تھا۔ حالات بہت خراب تھے اور وہاں ایک پاکستانی کی موجودگی کچھ بھی ثابت کرسکتی تھی. رات کے وقت آفغان آرمی نے میری گاڑی روکی اور مشکوک نظروں سے مجھے دیکھا اور انٹروگیشن کیلئے اندر لے گئے۔ ان کا سینئر آفیسر آیا تو جیسے ہی میں نے کہا کہ میں کوہاٹ سے ہوں، کہنے لگا اپ مہمان ہو، میں کوہاٹ میں دس سال رہ چکا ہوں۔ چائے پلا کر رخصت کرڈالا.
اسی سال کندوز میں طالبان نے تلاشی پر روک لیا، ڈرائیور جو پنجشیر کا تھا اسے گاڑی سے گھسیٹ کر نکالا اور سر پر کپڑا ڈال کر الگ بٹھا دیا اور میری طرف خشمگیں نگاہوں سے اگے بڑھے اور شناخت مانگی۔ شناخت دیکھنے کے بعد معذرت کی کہ مہمان آللہ کے رحمت ہوتے ہیں، معافی چاہتے ہیں۔ تھوڑی بحث کے بعد ڈرائیور کو بھی میرے ساتھ جانے دیا.
مجھے افغانستان میں آتے جاتے دس سال ہوگئے۔ آج تک میری بے عزتی نہیں ہوئی، اج تک مجھے پاکستانیت کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا. اس میں عوام, فوج اور طالب بھی شامل ہیں.
مگر پرسوں جب کابل ائیرپورٹ اترا تو ہر نگاہ اجنبی تھی. امیگریشن والے کی روایتی مسکراہٹ اور گرم جوشی سے “سلام الیکم برادر” کا جواب ملنے کے بعد جب انکی نظر میرے گرین پاسپورٹ پر پڑی تو فوراً مسکراہٹ ہوا ہوگئی اور ترشی سے میرا پاسپورٹ میرے سامنے پٹخ دیا گیا.
آج ایک ٹیکسی میں بیٹھا تو نوجوان ڈرائیور نے مجھ سے پوچھا “برادر تو آفغانی است؟” میں نے جواب دیا “برادر مہ پاکستانی است”، غصے سے اسکی مٹھیاں بیھنچ گئیں اور آنکھوں میں سختی آگئی۔ مجھے حیرانی ہوئی اور پوچھا کہ محترم لڑائی دو ملکوں کے بیچ ہے اپ مجھ پر کیوں غصہ ہورہے ہیں. کہا میری ماں کی موت کا ذمہ دار پاکستان ہے. ماں کو گردوں کی بیماری تھی ہر مہینے پشاور لیکر جاتا تھا، ویزہ لگا کر۔ مگر اس بار بارڈر بند کردیا گیا، دو دن تک ماں بارڈر پر منتظر رہی مگر گیٹ نہ کھولا گیا، بالاخر وہیں پیر رگڑ رگڑ کر مر گئی. ارے ظالموں ہم نے کیا بگاڑا ہے پاکستان کا۔ میری تو دو بہنیں تک پاکستانیوں سے بیاہی گئیں ہیں۔ اج اتنی جلدی اپ لوگوں نے ہمیں خود سے الگ کرڈالا، کم از کم اتنا سوچا ہوتا کہ یہاں جن آفغانیوں کو بھیج رہے ہو انکے گھر چالیس سال پہلے تباہ کردیئے گئے ہیں. چالیس سال کی محنت کرکے ہم جب پاکستانی بن گئے، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہمیں دھتکارا گیا.
آج طورخم پر کم از کم سو پاکستانی مزدور جن کے ویزے ختم ہوچکے ہیں آفغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پیسے نہیں ہیں انکے پاس اور افغانی فوج کے کیمپ سے ان کیلئے کھانا آتا ہے. ان میں پشتون بھی ہیں اور پنجابی بھی ہیں۔ بارڈر حکام پچھلے پندرہ دنوں سے پاکستان سے درخواست کررہے ہیں کہ بھلے بارڈر بند رکھو مگر یہاں دس پاکستانیوں کی طبعیت شدید خراب ہے، انکو تو پاکستان آنے دو۔ مگر جواب کسی کے پاس نہیں ہے. کیا اپکے پاس جواب ہے؟ یا وہی جواب دیں گے کہ آؤ افغانیوں کو مار ہی ڈالیں کیونکہ دہشت گردی کا واحد حل یہی ہے۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply