فاٹا اصلاحات اور ڈرون حملہ

وزیر اعظم نواز شریف کی سربراہی میں وفاقی کابینہ نے سرتاج عزیز کی سربراہی میں بنائی جانے والی کمیٹی کی فاٹا اصلاحات کی منظوری دے دی ہے ۔ فاٹا کوخیبر پختونخواہ میں ضم کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے تاہم عمل درآمد کیلئے پانچ سال کا وقت مقرر کیا گیا ہے ۔ وزیراعظم نے اس موقع پر اپنے خطاب میں ملکی دفاع اور سلامتی کیلئے قبائلیوں کی لازوال قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ اب وقت آگیا ہے کے ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جانے والے ان پسماندہ علاقوں کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے ۔انہوں نے کہا اس عمل کے مکمل ہونے میں پانچ سال کا وقت لگے گا مگر 2018 کے انتخابات میں فاٹا کے عوام اپنے صوبے خیبر پختونخواہ کی اسمبلی کیلئے اپنے نمائندوں کا انتخاب کر سکیں گے ۔
عین اس وقت جب وفاقی کابینہ فاٹا اصلاحات کی منظوری کیلئے سر جوڑے بیٹھی تھی کرم ایجنسی پر امریکی ڈرون حملہ کیا گیا جس میں ایک جاسوس طیارے نے دو میزائل داغے اور موٹر سائکل پر سوار ہلاک ہونے والے دو افراد کو افغان طالبان ظاہر کیا گیا ۔ ہلاک ہونے والے طالبان میں سے ایک کی شناخت قاری عبداللہ سباری کے نام سے کی جارہی ہے جو طالبان کا افغان کمانڈر اور حقانی نیٹ ورک سے متعلق بتایا جا رہا ہے دوسرے کا نام شاکر اور تعلق افغان صوبہ خوست کے علاقہ باری سے بتایا جا رہا ہے ۔ امریکی انتظامیہ کے مطابق یہ افراد افغان سرحد غیر قانونی طور پر پار کر کے کرم ایجنسی میں داخل ہوئے تھے ۔
فاٹا اصلاحات کا محرک فاٹا سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کی ایک متفقہ قرارداد بھی ہے جس میں فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں ضم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور جسے فاٹا کے عوام کی حمایت حاصل ہے جبکہ قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں شامل کرنا نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بھی ہے ۔ ان اصلاحات کے حوالے سے وفاقی حکومت کو پشتونخوا عوامی ملی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور اپنی حلیف جماعت جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے شدید تنقید اور مزاحمت کا سامنا رہا ہے ۔ مولانا فضل الرحمان فاٹا میں عوامی ریفرنڈم کا مطالبہ کرتے رہے ہیں اور انکا موقف ہے کہ فاٹا کے اراکین اسمبلی کو فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا مینڈیٹ حاصل نہیں۔ تاہم حکومتی کمیٹی کی اصلاحات پر انکے موقف میں اب واضح طور پر نرمی دیکھی جا رہی ہے ۔ محمود خان اچکزئی فاٹا کو پختونخواکے کچھ حصوںکو ساتھ ملا کر ایک الگ صوبہ کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کا نام وہ صوبہ افغانیہ تجویز کر تے ہیں ،تاہم انکے اس موقف کو نہ تو فاٹا کے عوام کی حمایت حاصل ہے اور نہ ہی خیبر پختونخوا کے عوام بلوچستان میں بیٹھی اس قیادت کو اپنی آواز تسلیم کرتے ہیں ۔
خیبر پختونخواکی حکمران جماعت پی ٹی آئی اور اس صوبہ کی نمائندہ جماعت اے این پی جس کی گراس روٹ لیول تک رسائی ہے فاٹا کے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے حق میں ہیں ۔ اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی کا کہنا ہے کہ دو دوستوں نے فاٹا اصلاحات کی راہ میں روڑے اٹکا کر حکومت اور حکومتی کمیٹی کو اصلاحات میں مزید بہتری لانے سے روکا اور یہ فاٹا کے مظلوم عوام کے ساتھ ہمدردی نہیں ۔ انکا اشارہ واضح طور پر مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کی طرف ہے ۔
فاٹا کے عوام ان اصلاحات کی رو سے اس سو سال سے مسلط کیئے گئے انگریز دور کے جابرانہ قانون سے نجات حاصل کر لیں گے جسے ایف سی آر ( فرنٹئر کرائمز ریگولیشن ) کہا جاتا ہے ۔ ایف سی آر سے آزادی فاٹا کے عوام کی دلی تمنا بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی ۔ اس سے قبل این ایف سی ( قومی مالیاتی کمیشن ) میں فاٹا کا کوئی حصہ شامل نہیں رہا ہے اور وفاق اپنے حصے میں سے سالانہ بجٹ کے نام پر فاٹا کو بارہ سے بیس ارب روپے ادا کرتا رہا ہے جو چند افراد ہی کی ذاتی ترقی کا سبب بنتے رہے ہیں اور یہ علاقے کسی بھی نوع کی ترقی سے یکسر محروم رہے ہیں ۔ منظور کی جانے والی اصلاحات میں فاٹا کو این ایف سی میں 3 فیصد وسائل دینے کی منظوری دی گئی ہے جبکہ ان علاقو ں میں ایف سی آر کا خاتمہ کر کے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے بینچ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔
فاٹا کی قسمت کا فیصلہ ہونے سے قبل ہی دو مختلف محاذ بڑی شدت کے ساتھ سرگرم ہوئے ہیں ایک اندرونی محاذ عدل وانصاف اورپاکستانی معاشرہ اس پر محمود خان اچکزئی ڈٹے ہوئے ہیں اور انکی آواز کی بازگشت میں کچھ ” نادیدہ سائے ” رقصاں نظر آ رہے ہیں ۔ دوسرا محاذ بین الاقوامی سطح پر فاٹا پر ڈرون حملہ کر کے کھول دیا گیا ہے ۔
فاٹا پر ہونے والا یہ حملہ ایک طویل خاموشی کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پہلا حملہ ہے ۔ اس سے قبل آخری ڈرون حملہ گذشتہ برس مئی میں بلوچستان کے علاقہ میں کیا گیا تھا جس میں تحریک طالبان افغانستان کے امیر ملا عمر ہلاک ہوگئے تھے ۔
اس خطے کی بدقسمتی کہ افغان وار کے وقت افغان جنگجووں کے ساتھ اس خطے کے سادہ لوح انسانوں کو نہایت بے دردی کے ساتھ دو سپر پاورز کی نظریاتی جنگ میں جہاد کا نام لیکر خام مال کے طور پر استعمال کیا گیا اور فاٹا کے علاقے بالخصوص جنوبی وزیرستان کے وسیع و عریض علاقے میں جہادیوں کے تربیتی مراکز قائم کیئے گئے ۔ان تربیتی مراکز سے تیار ہونے والے جنگجووں نے صرف افغانستان میں ہی نہیں دریائے آمو پار کر کے افغانستان سے ملحقہ روسی ریاستوں تک میں اپنے نیٹ ورک کو پھیلا دیا جس کے ہولناک نتائج آج چار عشروں بعد پوری دنیا میں امن کے نام پر ایک سوالیہ نشان بن گئے ہیں ۔ ان علاقوں میں ابتدائی فوجی اقدامات میں جنرل مشرف کے دور میں خاطر خواہ حفاظتی اقدامات نہ کئے گئے جس کے سبب ایک بنا حکمت عملی کے آپریشن نے ایک طرف تو جنگجووں کے بجائے عام اور پر امن قبائلیوں کا قتل عام کیا تو دوسری طرف انتہا پسند جنگجووں کو پورے ملک میں منتشر ہونے کا موقع بھی مل گیا ۔
خیبر پختونخواہ سے عوامی نیشنل پارٹی اور سندھ سے ایم کیوایم نے متعدد بار اس امر کی نشاندہی کی اور احتجاج بھی کیا ۔پختونخوامیں تو اے این پی ایک طویل عرصہ تک ان انتہا پسندوں کے نشانے پر رہی مگر کسی مرحلے پر بھی اس نے مصلحت کا راستہ اختیار نہیں کیا ۔یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ سرحد جو سب سے زیادہ نشانہ بنا عسکریت پسندوں کی تخریبی کارروائیوں کا ،وہاں جس جماعت نے انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دیں وہ عوامی نیشنل پارٹی تھی مگر اسے دیوار سے لگانے والے ہاتھ کس کے تھے ؟
جنوبی سندھ میں انتہا پسندوں کے نفوذ پر سب سے زیادہ بلند آواز ایم کیوایم کی تھی اسے دیوار سے لگانے والے ہاتھ کس کے تھے ؟نیشنل ایکشن پلان جس میں انتہا پسندوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی تجاویز بھی شامل ہیں کیا اس پر عمل درآمد کیلئے ضروری تھا کہ روشن خیال اور انتہا پسندی کے خلاف مزاحمت کرنے والی سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگا دیا جائے ؟
ان تمام کڑیوں کو جوڑ کر اگر نتائج نکالے جائیں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اگر پاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے انتہا پسندی کے خلاف مخلصانہ کوششیں کی تھیں تو یہ ماننے کے سوا چارہ نہیں کہ کوئی طاقت اندرون خانہ ایسی بھی موجود رہی جو مسلسل انتہا پسندی کو تقویت دیتی رہی اور آج بھی جب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل باجوہ وزیرستان کا دورہ کر کے فاٹا کے عوام کی بحالی اور انھیں قومی دھارے میں شامل کرنے کی حکومتی پالیسی کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہیں تو کچھ اندرونی طاقتیں محمود خان اچکزئی کی زبان میں اپنا بیانیہ لے کر میدان میں نظر آتی ہیں تو کچھ بیرونی طاقتیں بھی ڈرون حملوں کے ذریعے یہ واضح کرتی نظر آتی ہیں کہ جن اہداف کیلئے برسوں خون بہایا گیا ہے انھیں مکمل طور پر حاصل کیئے بنا بحالی کے کسی پروگرام کو قبول نہیں کیا جائے گا ۔
نیشنل ایکشن پلان میں انتہا پسندوں کے سہولت کاروں کیلئے جس عزم کا اظہار کیا گیا تھا اگر اسکی حقیقی روح کو قائم رکھا جاتا اور اسکی آڑ میں سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنانے کے بجائے خلوص نیت کے ساتھ ہر شعبہ زندگی اور اداروں کا محاسبہ کیا جاتا تو انتہا پسندی کے اس تناور درخت کے پتے جھاڑنے اور شاخیں کاٹنے کے بجائے جڑیں کاٹنا کچھ اتنا زیادہ مشکل نہیں تھا مگر ایک بہترین حکمت عملی بھی جب عملی نفاذ کے وقت مختلف النوع تعصبات اور منافرتوں کا شکار ہو جائے تو نتائج کبھی توقع کے مطابق نہیں نکلتے ۔
فاٹا کے وہ چار لاکھ نقل مکانی کرنے والے افراد جنھوں نے ایک طویل اور صبر آزما وقت گزارا ہے انکی ایک بڑی تعداد کم و بیش ساڑھے تین لاکھ کی واپسی ہو چکی ہے یوں نقل مکانی کرنے والے 87 فیصد افراد واپس اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں ایک ایسے وقت میں جب حکومت انھیں معمولات زندگی کی بحالی کی نوید دے رہی ہے ڈرون حملوں کا سوئچ دوبارہ آن ہونا خطرے کی ایک ایسی گھنٹی ہے جو بتا رہی ہے کہ بے گناہوں کا خون ایک بار پھر بہایا جائے گاجسکی آڑ میں دہشت گردی کے تمام مراکز ایک بار پھر سرگرم ہوکر ان حملوں کو اپنی تخریبی کارروائیوں کا جواز قرار دینگے ۔
ان تمام حالات کے باوجود گذشتہ برس بلوچستان میں کئے گئے آخری ڈرون میں ملا منصور کی ہلاکت نے جو سوالیہ نشان لگایا تھا گذشتہ روز ہونے والے ڈرون حملے میں حقانی نیٹ ورک کے کمانڈر قاری عبداللہ سیاری کی کرم ایجنسی میں ہلاکت نے اسے مزید گہرا کر دیا ہے اور خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب افغان سرحدوں کو بند کر کے سیکیورٹی کو فول پروف بنانے کے دعوے کیئے جا رہے ہیں ۔افغان طالبان کی موجودگی اس جانب اشارہ کر رہی ہے کہ آپریشن ضرب عضب ہو یا رد الفساد یا نیشنل ایکشن پلان انکے بنیادی اہداف کو فوکس کرنے میں کہیں نہ کہیں کوتاہی ضرور ہے ۔

Facebook Comments

کاشف رفیق محسن
اسلام انسانیت کا مذہب ہے ، انسانیت ہی اسلام کا اصل اور روشن چہرہ انسانیت ہی میرا مذہب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply