کینسر (1) ۔ موذی/وہارا امباکر

“تین ہزار سال سے زیادہ ہو چکے جب سے ہم کینسر کو میڈیکل پیشے میں جانتے ہیں۔ تین ہزار سال سے زیادہ ہو چکے جب سے انسانیت میڈیکل کے پیشے کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہے کہ اس کا علاج مل سکے”
فارچون ۔ مارچ 1937

ہم کینسر کو جدید بیماری کے طور پر تصور کرتے ہیں لیکن اس کی وجہ استعارات ہیں جن سے اس بیماری کو سمجھا جاتا ہے۔ جدید بائیولوجی ہماری بتاتی ہے کہ خلیہ ایک مالیکیولر مشین ہے۔ کینسر وہ مشین ہے جو اپنے احکامات کو نظرانداز کر کے ایک نہ تباہ کئے جا سکنے والے خودکار آٹومیٹون میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
سوزن سونٹاگ نے کینسر کا موازنہ تپدق سے کیا تھا، “دونوں کا مطلب طویل اور مشکل تکلیف ہے جس کے آخری کنارے پر موت کھڑی ہے”۔
لیکن تپدق کسی اور صدی کی بیماری ہے۔ آج کا موذی کینسر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرجن شرون نولینڈ اس کے بارے میں لکھتے ہیں،“کینسر کا خلیہ آج کے معاشرے کے فرد کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ انفرادیت پسند ہے اور باغی ہے۔ یہ نان کنفورمسٹ ہے”۔ میٹاسٹیسس (کینسر کا جسم کی ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جانا) کا مطلب سکون سے ماورا ہے۔
اور جدید معاشرے سے اس کی ایک اور مماثلت بھی ہے۔ تپدق پھیپھڑے کو کھوکھلا کر دیتا ہے جبکہ کینسر فراوانی کی بیماری ہے۔ یہ پھیپھڑے میں بہت سے خلیے بنا کر دم گھونٹ دیتا ہے۔ یہ توسیع پسند مرض ہے، جو ٹشوز پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اپنی کالونیاں بناتا ہے۔ کسی ایک عضو میں اپنے لئے محفوظ جگہ بنا لیتا ہے اور پھر کہیں اور ہجرت کر جاتا ہے۔ اپنی نشوونما کے لئے جدتیں ڈھونڈتا ہے، کبھی دفاعی انداز سے، کبھی نڈر ہو کر، کبھی شدت سے، کبھی ہوشیاری سے بڑھتا ہے۔ جیسے ہمیں سکھا رہا ہو کہ زندہ کیسے رہا جاتا ہے۔ اس کا سامنا کرنا ویسا ہے جیسے کسی الگ ہی نوع کا کیا جا رہا ہو جو زندہ رہنے میں ہم سے زیادہ مہارت رکھتی ہو۔
کینسر کا خلیہ عام خلیے کی بڑی حیران کن طور پر تبدیل شدہ شکل ہے۔ یہ انتہائی کامیاب حملہ آور ہے۔ اور یہ خوفناک اس لئے ہے کہ انہیں خاصیتوں سے کامیابی حاصل کرتا ہے جنہوں نے ہمیں کامیاب نوع بنایا ہے۔
کسی عام خلیے کی طرح، کینسر کے خلیے کا انحصار بڑھنے پر ہے۔ خلیے کی ایک سے دو میں تقسیم پر۔ نارمل ٹشو میں یہ عمل بڑے نفیس طریقے سے ریگولیٹ ہوتا ہے۔ بڑھنے کے لئے اپنے خاص سگنل ہیں، رکنے کے اپنے خاص۔ کینسر میں بے قابو بڑھنا خلیوں کی نسلوں کی نسلیں پیدا کرتا چلا جاتا ہے۔ بائیولوجسٹ ایسے خلیوں کے لئے کلون کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں جن کا مشترک جد ہو۔ کینسر کلون کی بیماری ہے۔ تقریباً تمام معلوم کینسر کا آغاز ایک مشترک جد سے ہوتا ہے جو بے حد تقسیم اور بقا کی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے۔ اس سے نکلنے والی ان گنت نسلیں کینسر ہے۔
لیکن کینسر صرف کلون کی بیماری نہیں۔ یہ ارتقا کی بیماری بھی ہے۔ اگر بڑھوتری ہو لیکن ارتقا نہیں تو کینسر کے خلیے حملہ آور ہونے، زندہ رہنے اور پھیلنے کی صلاحیت کبھی حاصل نہ کر سکتے۔ ہر نئی نسل میں چھوٹی سی تعداد جینیاتی طور پر اپنے والدین سے کچھ فرق ہوتی ہے۔ جب کیمیوتھراپی کی ڈرگ دی جائے یا ہمارا امیون سسٹم اس کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کرنے لگے تو یہ میوٹنٹ کلون بچ جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ فٹ کی بقا کی وجہ سے بڑی تعداد میں خلیوں کے مر جانے کے بعد بھی کینسر زندہ رہتا ہے۔ میوٹیشن، چناوٗ اور بڑھنے کا یہ تیز سائیکل بقا اور بڑھنے کے لئے مزید سے مزید فٹ ہوتا جاتا ہے۔ کئی بار میوٹیشن مزید میوٹیشن کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ یہ جینیاتی عدم استحکام مزید نئی جدتیں پیدا کرتا ہے۔ کینسر ارتقا کی بنیادی منطق سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ کوئی اور بیماری ایسا نہیں کرتی۔ اگر ہماری اس زمین پر بے مثال (اور کچھ کے خیال میں بے قابو) کامیابی ڈارونین چناوٗ کا شاخسانہ ہے، تو پھر ہمارے اندر گھات لگائے یہ بیماری کا بھی۔ اور اس وجہ سے یہ بیماری موذیوں کی شہنشاہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی بار استعارے بات کو کہیں اور لے جاتے ہیں، لیکن ان سے بچا نہیں جا سکتا۔ کینسر کی تاریخ کے بارے میں کتاب لکھتے ہوئے میں مجھے بار بار ایسا لگا جیسے میں کسی شخص کے بارے میں لکھ رہا ہوں۔ یہ آئینے میں اپنا ہی پرسرار سا اور بگڑا ہوا عکس ہے۔
(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ سیریز اس کتاب سے ہے
Emperor of all Maladies: A Biography of Cancer by Siddharta Mukherjee

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply