آرمی چیف کا شکریہ۔۔نجم ولی خان

ہم میں سے بہت سارے سابق آرمی چیف راحیل شریف کا شکریہ ادا کرتے نہیں تھکتے تھے، کچھ اس لئے کہ نواز حکومت کے خلاف دھرنے ہوئے اور کچھ اس لئے شکریہ ادا کرتے تھے کہ دھرنے ہونے کے باوجود وہ دھڑن تختہ نہیں ہوا جو اب ہو گیا ہے۔عمران خان کے سوا سو دنوں سے بھی کچھ زائد کا دھرنا اتنا خوفناک نہیں تھا جتنا ہمارے کچھ مولویوں کا چند دن کارہا۔ عمران خا ن او ران کے سیاسی کزن کے دھرنے اپنی طوالت، امپائر کو بار بار پکارنے، کفن پہننے اور قبریں کھودنے کے باوجود کسی کا سر نہیں لے جا سکے مگر مولوی خادم رضوی کا چھوٹا سادھرنا وزیر قانون زاہد حامد کو ان کے عہدے سے ہٹا لے گیا۔ مسلم لیگ نون کے سربراہ نواز شریف وزارت عظمیٰ سے ہٹا دئیے گئے اور اب وہ اپنی صاحبزادی اور داماد کے ساتھ احتساب عدالت میں پیشیاں بھگت رہے ہیں جبکہ ان کے دونوں صاحبزادے اور وزیر خزانہ سمدھی اشتہاری قرار پا چکے ہیں۔ آپ مسلم لیگ نون والوں کو لاکھ سمجھائیں کہ یہ سب کچھ کسی گریٹر پلان کے بغیر ہی خود بخود ہوا ہے، جناب آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیانات بار بار سنائیں اور اب اس کے ساتھ جناب چیف جسٹس کی لاہور میں کی جانے والی تقریر کو بھی جوڑ لیں تو وہ پھر بھی نہیں مانتے۔ وہ شیخ سعدی کی روایت بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک دریا پر گئے جس کے کنارے لگے ہوئے درخت خود بخود کٹ کر زمین پر گرے، پھر ان کے تنوں کے سیدھے ، کشادہ تختے بنے، ان تختوں نے دیکھتے ہی دیکھتے کشتی کی صورت اختیار کر لی،اس کشتی نے دریا کا رخ کیا اور بہاو کے مخالف اپنے آپ بہنے لگی۔ میں انہیں کہتا ہوں کہ یہ ممکن نہیں کہ سب کچھ خود بخود ہی ہو جائے تو وہ میری بات سن کے ہنسنے لگتے ہیں۔ ایک بات بہرحال بہت کمال ہوئی ہے کہ آرمی چیف جناب جنرل قمر جاوید باجوہ نے مسلم لیگ کے سینیٹر مشاہد اللہ کے سوال پر یہ کہہ دیا ہے کہ اگر یہ ثابت کر دیا جائے کہ فوج فیض آباد والے دھرنے کے پیچھے تھی تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی پیش کش ہے ورنہ اس سے پہلے کسی نے اتنی جرات اور بہادری کے ساتھ تردید نہیں کی۔

سینیٹ پاکستان کے وفاق کی علامت اور ضمانت ہے۔ اس ایوان میں تما م صوبوں کی مساوی نمائندگی ہے جس سے مختلف زبانوں اور ثقافتوں والے اپنی تعداد سے سے ہٹ کر برابری کی بنیاد پر مکالمہ کر تے ہیں۔ جناب جنرل قمر جاوید باجوہ کا پہلا شکریہ اس بات پر ہے کہ انہوں نے اس ایوان کو اہمیت بخشی جسے ہمارے بہت سارے وزراء تک اہمیت نہیں دیتے حالانکہ یہ ان کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے آرمی چیف ہیں جو سینٹ گئے اور وہاں عسکری ہی نہیں بلکہ سیاسی امور پر بھی سوالوں کے جواب دئیے ۔ خوشی اس بات کی بھی ہے کہ پاک فوج کی طرف سے ان افواہوں کی بھی تردید کر دی گئی ہے جو پارلیمانی نظام کے بارے پھیلائی جا رہی تھیں۔ کچھ لوگ پروپیگنڈہ کر رہے تھے کہ پاکستان کی فوج ملک میں صدارتی نظام نافذ کرنا چاہ رہی ہے اوراس نظام کی وہ ، وہ خوبیاں بیان کی جا رہی تھیں جو شاید اس نظام کو تخلیق کرنے والوں کے علم میں بھی نہ ہوں۔ وہ نظرانداز کر رہے تھے کہ پاکستان میں جب بھی مارشل لاء لگا تو عملی طور پر صدارتی نظام ہی نافذ ہو گیااور اگر یہ نظام ایسا ہی مشکل کشا ہوتا توپھر ان برسوں میں قوم کے مسائل حل ہو گئے ہوتے مگر ہر مارشل لاء کی صورت میںآنے والے صدارتی نظام اور اس کی گود میں بیٹھے ٹیکنو کریٹس نے پاکستان کی وحدانیت کو متاثر کیا ۔ یہی وہ مکمل یا نیم صدارتی ادوار رہے جب چھوٹے صوبوں کے وفاق سے شکوے اور آپس میں فاصلے بڑھے ۔ پاکستان اسی وجہ سے دولخت ہوا کہ ہم آپس میں شکووں ، شکایتوں کو رفع نہ کر سکے۔

جناب جنرل قمر جاوید باجوہ کا سب سے بڑا شکریہ اس امر کا نہیں کہ وہ دھرنوں کے پیچھے ہونے کی دوٹوک انداز میں تردید کرتے ہیں اور اس کا بھی نہیں کہ وہ تمام صوبوں کو زنجیر کی طرح باندھے رکھنے والے پارلیمانی نظام کے خاتمے کی افواہوں کا خاتمہ کر رہے ہیں بلکہ اس سے بھی کہیں بڑا شکریہ تواس بات کا ہے کہ انہوں نے پاک فوج کے بعض ریٹائرڈ افسران کی طرف سے مختلف چینلوں پر فوج کی اپنے تئیں کی جانے والی ترجمانی سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے ورنہ ان صاحبان نے تو ہر شام سات بجے سے لے کر رات بارہ بجے تک ہر گھر کے ڈرائنگ روم سے بیڈ روم تک طوفان برپا کر رکھا تھا۔ وہ پاک فوج کا مختلف سیاسی معاملات میں موقف ایسے بیان کرتے تھے جیسے پاک فوج کسی متحارب سیاسی جماعت کا نام ہو۔وہ ہر اس عمل کی حمایت کرتے ہیں جو آئینی اور جمہوری حکومت کو کمزور کر رہا ہو۔مجھے اس وقت شدید حیرت رہی جب مختلف حوالوں سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل آصف غفور کا مختلف موقف اور مثبت نقطہ نظر سامنے آتا رہا مگر یہ ریٹائرڈ حضرات اپنے ہی ملک کی بعض سیاسی جماعتوں کے ساتھ یوں معاملہ کرتے جیسے وہ بھارتی فوج کا مقابلہ کر رہے ہوں۔ سیاسی نقطہ نظر کے اختلاف پر مخالف کو غدار اور کافر قرار دینے کا رجحان خوفناک بھی ہے اور قابل مذمت بھی۔ اب ان ترجمانوں کی طرف توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے جو فوجی نہیں ہیں مگر فوج کے خود ساختہ ترجمان بنے ہوئے ہیں۔ ان میں بعض سیاستدان بھی شامل ہیں اور کچھ پیشہ ور صحافی بھی۔میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ جب پاکستان کے اداروں کی بات ہوتو پاکستان کے ہر صحافی کو ان کا دفاع کرنا چاہئے مگر اس دفاع کا مطلب دوسرے اداروں کے ساتھ جنگ نہیں۔ ہمیں یہ خیال رکھنا ہوگا کہ جہاں پاکستان کی فوج ہماری اپنی ہے وہاں پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھی ہماری اپنی ہیں۔ مجھے ان ریٹائرڈ لوگوں سے زیادہ شکوہ اپنے ان صحافتی اداروں سے ہے جو انہیں سیاسی پروگراموں میں رائے دینے کے لئے بلاتے ہیں ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ہمارے فوجی افسران ریٹائرمنٹ کے بعد ان سیاسی امور کے ماہر بن جاتے ہیں جن سے پروفیشنل لائف میں انہیں دور رہنے کی تربیت اور ہدایت دی جاتی ہے۔ اب اس بیانیے کی تکمیل اس وقت ہو گی جب کچھ باقی خود ساختہ ترجمانوں کو بھی اسی قسم کا عاق نامہ جاری کیا جائے گا ورنہ وہ سیاسی بلکہ قومی عدم استحکام میں کردارادا کرتے رہیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آرمی چیف جناب قمر جاوید باجوہ کا سینٹ میں قدم پڑا تو انتخابی حلقہ بندیوں کا وہ آئینی ترمیمی بل بھی دو تہائی اکثریت سے منظور ہو گیاجو ایک ماہ سے لٹکا ہوا تھا۔ پیپلزپارٹی کے وہ سربراہ جو اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کر رہے تھے، اب کچھ عرصے سے اپنے کچھ تابعداروں کے ذریعے تاثر دے رہے تھے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر یہ آئینی ترمیم روکے ہوئے تھے۔ عام انتخابات سے قبل سینٹ میں مسلم لیگ نون کی آٹھ، دس سیٹوں کے بڑھ جانے سے کوئی آسمان نہیں گر پڑے گا اور نہ ہی مسلم لیگ نون کو وہاں سادہ اکثریت حاصل ہوجائے گی ۔ جب ہم اپنے منتخب اداروں کی بات کرتے ہیں تو وہاں لازمی طور پر کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی سیٹیں تو سب سے زیادہ ہوں گی جیسے پیپلزپارٹی کی رہی ہیں۔جناب میجر جنرل آصف غفور نے درست کہا، آرمی چیف جناب جنرل قمر جاوید ہاجوہ کے سینٹ میں ایک گھنٹہ تک خطاب اور تین گھنٹے تک سوال جواب کے سیشن نے بہت ساری غلط فہمیوں کو دور کیا ہے۔ سول ملٹری ریلیشن شپ کی بڑی سٹیک ہولڈر مسلم لیگ نون اس سوال پر غور کرتی نظر آتی ہے کہ کیا واقعی عدلیہ نے جے آئی ٹی کی رپورٹ اور نااہلی کے فیصلے سمیت جو کچھ کیا وہ واقعی محض اپنے طور پر کیا کہ پاک فوج نے تو ان تمام متنازعہ امور سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا ہے۔ میں جناب جنرل قمر جاوید باجوہ کا شکریہ ادا کرتا اور رجائیت پسند کے طور پر ان سے آئندہ کے لئے مثبت امیدیں رکھتا ہوں تو ایسے لوگوں سے نظریں چرا لیتا ہوں جو دودھ کے جلے ہوئے ہیں اور چھاچھ کو پھونکیں مار رہے ہیں۔ پاکستان کی فوج پاکستان کے ہر شہری کی نمائندہ اور محافظ ہے، جنرل قمر جاوید باجوہ کے آئین اور جمہوریت کے حق میں مسلسل بیانات نے اس قومی ادارے کو کچھ لوگوں کے مخصوص مفادات کی خاطر آلہ کار بننے کی راہ روکی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو ملک میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت سے اختلاف اور بغض رکھتے ہیں اور اپنے مقاصد کے حصول کے لئے قومی اداروں کو متنازعہ بنانے سے بھی باز نہیں آتے۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply