کیا بات ہے پنجاب کی۔۔۔ عبدالروف خٹک

کبھی کبھار کچھ سانحے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ہمیشہ یاد بن کر رہ جاتے ہیں اور گلے کا  ہار بھی بن جاتے ہیں۔ ان یادوں میں کچھ ایسا میٹھا اور دکھ بھرا لطف ہوتا ہےکہ انسان اپنی ہنسی اور دکھ دونوں کو ایک ساتھ یاد کررہا ہوتا ہے اور سننے والا بھی افسوس اور لطف اندوز ہورہا ہوتا ہے،کچھ ایسا واقعہ میرے ساتھ بھی حال ہی میں پیش آیا جب میں حیدرآباد سے براستہ ٹرین پشاور کے لئیے روانہ ہوا ۔میرے ساتھ فیملی کے علاوہ ایک عدد ساس بھی تھیں۔ ساس کے لئیے عدد کا صیغہ اس لئیے استعمال کیا کہ وہ ایک ہی تھیں باقی کو عدد میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔خیر بات ہورہی تھی ہمارے سفر کی اور ساتھ فیملی کا سفر، آدھے راستے تک تو خوب ہوا، لیکن جونہی دوسری  صبح ہم لاہور اسٹیشن پر پہنچے ،یہی سے ہمارا مزا دوبالا ہونے کے تہ و بالا ہوگیا۔ اچانک ہماری اس ایک عدد ساسو ماں کی طبعیت میں بگاڑ پیدا ہوگیا پہلے تو اسے ہم معمول کی عادت سمجھتے رہے لیکن جوں جوں دوا کی درد بڑھتا گیا کے مصداق حالات خراب ہوتے چلے گئے ۔

مرتا کیا نہ کرتا کسی صاحب نے مشورہ دیا کہ گارڈ سے رابطہ کریں ہمیں پہلی بار علم ہوا کہ ٹرین میں ایک عدد گارڈ بھی ہوتا ہے، جو یہ تمام معاملات ڈیل کرتا ہے ہم بمشکل گارڈ تک خود کو پہنچا سکے لیکن ڈاک کے وہی تین پات ،ان کے پاس ہماری مدد کے لئیے سوائے مشوروں کے کچھ نہ تھا۔سب نے ہمیں خوب اپنے مشوروں سے نوازا لیکن مریض کے لئیے خیر کی چیز برآمد نہ ہوئی ۔تمام لوگوں کے مشورے کے بعد طے یہ ہوا کہ ٹرین کو کسی بھی اسٹیشن پر روک کر مریض کو قریبی ہسپتال پہنچایا جائے۔ ٹرین میں موجود ایک شخص نے مشورہ دیا کے ایمرجنسی کال،  ریسکیو 1122 پر کال کر کے ان سے معلومات لیں وہ کیا کہتے ہیں ؟ میں نے جلدی سے ان سے رابطہ کیا انھیں تمام واقعے سے آگاہ کیا اور انھیں ہم نے بتایا کہ ہم اس وقت فلاں علاقے میں موجود ہیں  ۔ریسکیو 1122 نے جس طریقے سے ہمیں آگاہی دی اور وقتاً فوقتاً معلومات کا تبادلہ کرتے رہے تھوڑی دیر کے لیئے مجھے ایسا لگا میں کسی اور ملک میں ہوں ۔اس کی وجہ ہمارا بگڑا ہوا سسٹم ہے ۔لیکن یہ میرے لئیے کسی حیرت سے کم بھی نہ تھا کہ میں کسی اور ملک میں نہیں بلکہ پنجاب میں تھا اور یہ پنجاب حکومت کی ایمبولینسز سروس تھی جو پورے پنجاب میں عوام کو یہ سہولت بہم پہنچا رہی ہے۔  سب سے بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ عملے کا رویہ بڑا متاثر کردینے والا تھا ۔پنجاب حکومت کی صرف اس کارکردگی پر دل اتنا خوش ہوا کہ لگا سندھ حکومت کو کوسنے ۔
خیر ہمیں علم ہوا کہ ہمارا اگلا اسٹیشن جہلم ہے تو ہم نے ریسکیو سے رابطہ کیا انھوں نے ہمیں اپنے پراگرام سے آگاہ کیا کہ آپ لوگ جونہی اسٹیشن پر پہنچو گے ہماری سروس دس منٹ میں آپ کے پاس پہنچ جاۓ گی۔جہلم پر ٹرین جونہی رکی ہم نے جلدی سے مریض کو ٹرین سے اتارا اور سامنے پڑے ایک بینچ پر لٹادیا ۔مریض سمیت ہم چار لوگ رک گئے باقی اپنے سفر کی طرف آگے کو روانہ ہوئے۔ابھی میں نے اسٹیشن پر کھڑے اک شخص سے پوچھا ہی تھا کہ ایمبولینس کا سائرن بجتا ہوا سنائی دیا اور اگلے ہی لمحے ایمبولینس اس سٹیشن کے احاطے میں اندر میرے مریض کے سرہانے کھڑی  تھی ۔عملے کی چابک دستی دیکھ کر مجھے پنجاب پر رشک آنے لگا کہ یہ لوگ اتنے ایڈوانس ہوچکے ہیں کہ بے لوث ہوکر لوگوں کی خدمت کرتے ہیں ۔جہلم کے سرکاری ہسپتال میں قدم رکھتے ہی مجھے ایسا لگا میں کسی پرائیویٹ انسٹیٹیوٹ میں آگیا ہوں ۔ریسکیو نے مریض کو جلدی سے ایمبولینس سے اتارا اور ہسپتال کی ایمرجنسی میں بیڈ پر لٹادیا اور مجھے اپنے ساتھ آنے کو کہا ۔میں نے اپنے عزیز کو مریض کے ساتھ کھڑا ہونے کا اشارہ کیا اور ان کی جانب چل دیا ،انھوں نے تمام کارروائی پوری کی اور اس کے بعد ایک کاغذ پر مجھ سے دستخط لئیے اور مجھ سے راۓ طلب کی کہ ہمارا ریسکیو 1122 آپ کو کیسا لگا ۔ہماری سروس سے آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں پہنچی؟ میں نے تمام باتوں کا جواب اثبات میں دیا ۔

اس کے بعد میں اپنے مریض کی طرف واپس لوٹا میرا مریض جو بیماری سے کافی لاغر ہوچکا تھا اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھا مریض انکیف میں جا چکا تھا بی پی اور پلس بھی برائے نام تھے۔اصل میں ہماری ساسو ماں کو ٹرین میں ہیضے کی شکایت ہوگئی تھی جسے بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے مریض اس حالت تک پہنچا۔تھوڑی ہی دیر میں نرس اسٹاف دو سے تین ڈرپس چڑھا چکی تھی مریض کے لیئے جو ضروری سمجھا گیا ہسپتال سے اس کی فراہمی کی گئی۔مجھے ہسپتال میں دو گھنٹے گزر چکے تھے لیکن مجھ سے اب تک کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا کہ فلاں چیز یا فلاں ٹیسٹ باہر سے کرواکر لاؤ، میں صرف خاموشی سےایک طرف کھڑے ہوکر تماشہ دیکھتا رہا۔ ہسپتال انتظامیہ ،ڈاکٹرز ،اور اسٹاف کی پھرتیاں دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ ایک گورنمنٹ ہسپتال میں اتنی بڑی سہولیات ادویات اور ٹیسٹ کی فراہمی بالکل مفت تھی۔یہ سب تعریفی کلمات میرے لئیے ایک سند کی حیثیت رکھتے تھے لیکن اس وقت میری کیفیت بڑی دگرگوں تھی کاٹو تو لہو نہیں اس کی وجہ میرے مریض کا مزید بگڑنا تھا۔اچانک سے میرا مریض بہت سخت ہوگیا اور گیسپن میں چلا گیا جس کا مطلب ہے مریض کی آخری سانسیں ۔

مریض کو ایمرجنسی میں اس حالت میں دیکھ کر اسٹاف اور ڈاکٹر سے رابطہ کیا اور انھیں درخواست کی کہ میرے مریض کو آئی سی یو میں شفٹ کیا جائے بہت جلد میری درخواست پر عمل کیا گیا مریض کو آئی سی یو میں شفٹ کیا گیا اس کے بعد ڈاکٹرز نے ہمیں بتا یا کہ مریض سیریس ہے اور بی پی پلس کچھ بھی نہیں ۔یہ سنتے ہی میرے پیروں تلے سےزمین نکل گئی اس کی وجہ ساسو ماں کا ہونا نہیں اس کی وجہ محرم کی دس تاریخ کا ہونا تھا ،جس کی وجہ سے میں کسی سے رابطہ نہیں کرپا رہا تھا کہ اگر اللہ نہ کرے میرے مریض کو ایسا کچھ ہوجاتا ہے تو میں مریض کو کس طرف لیکر جاؤں گا۔کیونکہ خاندان دو ٹکڑوں میں بٹ چکا تھا کچھ سفر میں تھے اور کچھ گھر میں اور گھر ہم سے کوسوں میل دور۔اسی اثناء میں کافی وقت گزر گیا اور کچھ دیر بعد ایک عزیز نے بتایا کہ ڈاکٹرز کہہ رہے ہیں کہ اب مریض خطرے سے باہر ہے۔ یہ سنتے ہی جان میں جان آئی ۔اب میں نے رابطہ کرنا چھوڑ دیا اور مریض کی طرف دوبارہ متوجہ ہوگئے ۔یہاں کے ڈاکٹرز اور عملے نے جو تعاون کیا وہ قابل دید ہے یہاں کے لوگ بھی بڑے ملنسار اور محبت نچھاور کرنے والے لوگ تھے ۔یہاں کے لوگوں نے جو محبت اور عزت دی اس سے میرے دل میں پنجابیوں کے لئیے بہت زیادہ محبت بڑھ گئی۔ ستیا ناس ہو ان سیاست دانوں کا جو صرف اور صرف لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور عوام میں نفرت کے بیج بوتے ہیں اور عوام بھی بیچاری اندھی تقلید میں دوسری قوموں سے نفرت کرتی ہے لیکن یہ سب کچھ اس وقت جھاگ کی طرح بیٹھ گیا جب ہم مسافروں کی طرح ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں وارد ہوئے اور ہمارے ساتھ یہ اندوہناک واقعہ ہوا ،لیکن بجائے ہمیں حقارت سے دیکھنے کہ جیسا ہم نے سن رکھا تھا اس کے الٹ ہوا ۔

ہمیں وہ محبت ملی کہ ہم اپنے مریض کو بھول گئے۔اور ان کی محبت میں کھو گئے ہمیں رات کو کھانا فراہم کیا گیا صبح کو ہمیں ڈھیر سارے کپڑے دئیے گئے مریض کےلیے۔کیونکہ ہم اپنا تمام سامان چھوڑ آئے تھے۔ان محبتوں نے مجھے پنجاب کا گرویدہ کردیا۔ اب جس دوست رشتےدار کی بھی کال آتی میں مریض کی صحت یابی کے بجائے پنجاب کی تعریفوں کے پل باندھ دیتا۔اب یہاں جہلم ہسپتال میں ہمارے مریض کی صحت قدرے سنبھل چکی تھی۔ اب ڈاکٹروں کی طرف سے ہمیں اجازت تھی آگے ہسپتال میں منتقل ہونے کی ۔ہمیں بتایا گیا کہ اگر راولپنڈی ہسپتال داخل ہونا چاہتے ہو تو ہم آپ کو ریسکیو 1122 کی سہولت فری دیں گے۔ مجھے ان کی بات بھلی لگی اور میں نے جلدی سے ہامی بھرلی اور کچھ ہی لمحوں بعد ہمیں راولپنڈی ہسپتال کے لیئے روانہ کردیا گیا ۔اب ہمارا اگلا قیام راولپنڈی میں ہولی فیملی ہسپتال تھا ۔کچھ ہی گھنٹوں بعد ہم راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال میں موجود تھے۔ یہاں بھی تمام معاملات جہلم ہسپتال جیسے تھے ۔یہاں پہلا دن ہمارا بڑا کٹھن گزرا۔ اسکی وجہ ہماری ناقص معلومات تھی ،ہسپتال کے حوالے سے۔اس کے علاوہ تمام معاملات بہتر تھے کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں تھی،اس ہسپتال میں ہم نے 12 دن گزارے لیکن اک دفعہ بھی ہمیں کسی قسم کی شکایت کا موقع نہیں ملا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہسپتال میں کام کرنے والا عملا ،نرسز اسٹاف اور ریسیپشنسٹ اسٹاف کا رویہ قدرے بگڑا ہوا تھا باقی تمام معاملات بہت بہترین انداز میں چل رہے تھے۔میں نے یہاں پنجاب میں اپنے مریض کے ساتھ 15 دن گزارے لیکن مجھ پر کوئی بوجھ نہیں بنا ،مطلب میرا کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوا۔مجھے یہاں پنجاب میں بڑی عزت ملی جس کسی کو بھی پتا لگا کہ ہم مسافر ہیں اور ہماری راہ گزر کوئی اور ہے تو ہمیں وہ عزت ملتی کہ ہم اپنے تمام غم بھول جاتے۔آج ہمارا اس ہسپتال میں آخری دن تھا اور ہمیں چھٹی ملنے والی تھی لیکن نہ جانے کیوں ہم ہسپتال کے اس ماحول سے اتنے مانوس ہوچکے تھے کہ ہم واپسی جانے پر اداس تھے ۔آخر ہم نے اپنا رخت سفر باندھا اور لگے تکنے ہسپتال کےایک ایک درو دیوار کو ،اب ہم رواں دواں تھے اپنے آبائی علاقے خیبر پختونخوا کی طرف ۔ہمارامریض اب بالکل ٹھیک ہوچکا تھا اور یہ اللہ کا ہم پر بہت بڑا کرم تھا۔

Facebook Comments

Khatak
مجھے لوگوں کو اپنی تعلیم سے متاثر نہیں کرنا بلکہ اپنے اخلاق اور اپنے روشن افکار سے لوگوں کے دل میں گھر کرنا ہے ۔یہ ہے سب سے بڑی خدمت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply