معاشرہ اور دانشور

“دادی! کیا ہمارے ڈاکٹر صاحب بھی بیمار ہوتے ہیں اور اگر وہ خود بیمار ہو جائیں تو ان کا علاج کون کرتا ہے? ”
کلینک پر اپنی باری کے انتظار میں دادی کی گود میں بیٹھے ننھے نے سوال کیا۔
“پتر! ڈاکٹر صاحب سے بڑا کوئی اور ڈاکٹر ان کا علاج کرتا ہوگا”
تھکے ہوئے لہجے میں دادی نے جواب دیا
“دادی اگر بڑے ڈاکٹر صاحب بھی بیمار پڑ جائیں تو پھر بڑے ڈاکٹر صاحب کا علاج کون کرے گا?
ننھے کا اگلا سوال حاضر تھا۔
“دادی اگر سارے ڈاکٹر ہی بیمار پڑ جائیں تو ہمارا علاج کون کرے گا”
ننھےکاذہن سوال سے چپکا پڑا تھا
“پتر ہمارا علاج تو پھر بھی یہ ڈاکٹر ہی کریں گے نہ!”
دادی نے ننھے کو ٹالنا چاہا۔
“مگر دادی جو خود بیمار ہو وہ کسی دوسرے بیمار کا علاج کیسے کر سکتا ہے, اسے تو پہلے خود علاج کروانا پڑے گا نہ!”
ننھا بھی اپنی رو میں سوال پہ سوال کئیے جا رہا تھا
“دادی!”
وہ ہچکچاتے ہوئے مخاطب ہوا
“اگر سارے ڈاکٹر بیمار پڑ جائیں تو کیا ہم لوگ بنا علاج کے پڑے رہیں گے? ہم تو بیمار پڑے پڑے مر جائینگے دادی!”
دادی نے ننھے کو ڈانٹنا شروع کر دیا کہ کیا اول فول بولے جا رہا ہے۔
اتنے میں کمپاونڈر نے انہیں انکی باری پر ڈاکٹر صاحب کے پاس بھیج دیا۔
بالکل اسی طرح کہا جاتا ہے کہ “دانشور” بھی معاشرے کے ڈاکٹر اور طبیب ہوا کرتے ہیں جو معاشرے کی بیماریاں اور ناسور پکڑتے ہیں اور پھر انکا علاج اپنی دانش اور حکمت سے کیا کرتے ہیں۔ وہ معاشرے کے پوشیدہ امراض تک کو جان جاتے ہیں اور پردے کا اہتمام رکھتے ہوئے لادوا امراض کا بھی شافی علاج کرتے ہیں۔ معاشروں میں جب بیماریاں حد سے تجاوز کرنے لگتی ہیں تو دانشور اپنے تیکھے اور بعض اوقات کڑوے الفاظ سے ان معاشرتی بیماریوں کی پکڑ کرتے ہیں, علاج کرتے ہیں اور معاشروں کی صحت کے ضامن بنتے ہیں۔
اب اگر ننھے کے سوال کی طرح سوال کیا جائے کہ ” اگر دانشور ہی بیمار پڑ جائیں تو معاشرے کا علاج کون کرے گا? کوئی دانشور جو خود بیمار ہوکیا وہ بیمار معاشرے کا علاج کر پائے گا? کیا معاشرہ بیمار پڑا پڑا آخر کار مر نہ جائے گا?
سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی دانشور بھی بیمار ہو سکتا ہےاورکیسے پتا چلے کہ کونسا طبیب یعنی دانشور صحتمند ہے اور کونسا بیمار?
ان سوالوں کا جواب “ٹالسٹائی کچھ یوں دیتا ہے کہ:”تمام آسودہ اور خوش خاندان ایک جیسے ہوتے ہیں جبکہ پسماندہ اور ناخوش خاندانوں میں سے ہر ایک کی پسماندگی کی وجہ بالکل ہی الگ اور بے تکی ہوتی ہے”.
“All happy families are alike; each unhappy family is unhappy in its own way.”
صحتمند دانشور جو معاشروں کے معالج ہوتے ہیں وہ خوش خاندانوں کی طرح سبھی ایک جیسے ہوتے ہیں اور ایک جیسی خوبیوں کے مالک ہوتے ہیں جیسے کہ:
1- وہ اپنی خود اعتمادی میں مبالغہ آرائی کی آمیزش نہیں کرتے اور اپنے علم میں موجود ہر کمی کے بارے نہایت حساس ہوتے ہیں, جسے وہ ہمیشہ پورا کرنے کی جستجو میں رہتے ہیں۔
2-وہ مسئلے کے ہرممکنہ پہلو پر غور کرتے ہیں اور اپنی رائے کو تبدیل کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے جب حتمی ثبوت انکی رائے کے مخالف ہوں۔
3- وہ بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ انسان آسانی سے خود پسندی کا شکار ہو جاتا ہے اور خود کو ہی دھوکہ دینا شروع کردیتا ہے, لہذا وہ کبھی خود پسندی کا شکار ہو کر اپنے آپ کو دھوکہ دینے کی غلطی نہیں کرتے
4-آخری وصف یہ کہ وہ تب اپنی رائے اور خیالات پر نظر ثانی ضرور کر لیتے ہیں جب کوئی معزز اور صاحب عقل انہیں تنبیہہ کرتا ہے کہ وہ خود کو دھوکہ دینے کی غلطی نہ کریں۔
اب ٹالسٹائی کے پسماندہ خاندانوں کی طرح بیمار دانشوروں کی خامیاں بھی بالکل الگ ہی نوعیت کی ہوتی ہیں جنکا احاطہ تو خیر ممکن نہیں مگر چند ایک اشارتہ پیش ہیں:
مثلا:
1- وہ یہ جملہ کبھی نہیں بولتے “میں اس کے بارے کچھ نہیں جانتا”
2-وہ ہر اس بحث میں بخوبی ٹانگ اڑاتے ہیں جس کے بارے انکا علم جزوی درجے سے بھی بہت کم ہوتا ہے
3- وہ اپنی بیمار دانشوری کو معاشرے کے علاج کی بجائے معاشرے میں نمایاں ہونے کے لئیے بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔
نہایت افسوس کے ساتھ ہمیں اقرار کرنا پڑے گا کہ ہم بیمار معاشرے میں زندہ ہیں اور بیمار معاشروں کا علاج صحتمند دانشور کیا کرتے ہیں, نہ کہ وہ جو خود ہی بیمار ہوں۔ سوشل میڈیا کے اس طلسماتی دور میں جہاں بہت سے مسیحا دانشور معاشرے کی بیماریوں کی سرکوبی میں سر گرم ہیں وہاں جگہ جگہ عطائی اور بیمار دانشوروں کی دوکانیں بھی کھلی پڑی ہیں۔ خدارا انہیں پہچانیں اور اپنے معاشرے کو ان کے حوالے مت کریں ورنہ معاشرہ اپنی آئی سے نہیں, ان بیمار دانشوروں کے ہاتھوں ضرور مر جائے گا۔

Facebook Comments

اکرام گوندل
اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر(گورنمنٹ آف پنجاب), ہمہ وقت طالبعلم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply