اپنے بچوں کی تخلیقی صلاحیت کا قتل مت کریں۔۔۔ضیغم قدیر

آپ کے بچے کے ہاتھ میں انڈہ ہے۔ آپ اپنے بچے کو جھڑکتے ہیں کہ انڈہ واپس رکھ دو، ایسا کرنے پر آپ بچے کی تخلیقی صلاحیتوں کو یہیں قتل کر دیتے ہیں کیونکہ اس انڈے کے ٹوٹنے کے نتیجے میں آپکے بچے کو فزکس کے دو نئے قوانین اور حیاتیات کی نئی معلومات کا پتا چلنا تھا۔
اور اس تجربے پر کتنے پیسے لگنے تھے؟ دس روپے۔ صرف دس روپے کی خاطر آپ بچے کے سوچنے کی صلاحیت مار دیتے ہیں۔

آپ کا بچہ ڈرموں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ وہ چھڑی کیساتھ برتن بجا رہا ہے۔ آپ اُسے جھڑک کہ ایسا نہ  کرنے پہ مجبور کر دیتے ہیں۔ مُبارک ہو آپ نے ایک اچھے ڈرمر کا قتل کر دیا ہے۔
آپ کا بچہ کاغذ کے ٹُکڑے لیکر کشتیاں بناتا ہے اور بارش کے پانی میں پھینکتا ہے۔ نالیاں بنا کر پانی نکالتا ہے اور آپ اسے مارتے ہیں کہ یہ گندہ کام ہے اور اسی مار کیساتھ آپ ایک اچھے انجینئر کا قتل کر دیتے ہیں۔

آپ کا بچہ کھلونا توڑ کر اندر سے موٹر نکالتا ہے۔ اور اس موٹر کو سیلوں کیساتھ جوڑ کر چلاتا ہے۔ آپ اسے جھڑکتے ہیں کھلونا کیوں توڑا مگر یہی جھڑک اسکے برقیاتی انجینئر کو قتل کر دیتی ہے۔ کچن میں، صحن میں مختلف رنگوں سے کھیلنے والے بچے کل کے کیمیاء دان ہیں۔

آج کے یہ بچے کل کے سائنسدان ہیں خدارا ان کو جھڑک کر انکے سائنسدان کو مت ماریں۔۔ اپنے بچوں کے بچپن کو قتل مت کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ :یہ تحریرنیل ڈی گریس ٹائسن سے  متاثر ہو کر  لکھی گئی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply