انتہا پسندی،ردِ عمل کی نفسیات۔قسط11

ڈاکٹر اختر احسن نے بچے اور والدین کے تعلق کے جو اسالیب Mechanisms بیان کیے تھے ھم نے ان کا اطلاق استعمار اور محکومین کے تعلق پر بالعموم اور خصوصیت سے پاکستانی معاشرے پر کیا۔ چند نتائج گزشتہ تحریر میں پیش کے تھے۔ اس سے پیشتر کہ میں مزید اسالیب کا اطلاق پاکستانی معاشرے پر کروں ایک بات دوہرانے میں شائد حرج نہ ہو۔

میں بنیادی طور پر یہ بات عرض کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ استعمار کی ریشہ دوانیاں اور کار گزاریاں تو سب جانتے ہیں کہ وہ کتنا عیار، بے رحم اور (بقول سرتاج عزیز صاحب ) کتنا خود غرض ہوتا ہے۔ یہ بات معلومات عامہ کا حصہ ہے اور یہ موجودہ تجزیے کا موضوع بھی نہیں ہے۔ اس تجزیے کا موضوع وہ اسالیب یا میکانیتیں ہیں جو محکوم استعمار کے ساتھ اپنے تعلق میں اختیار کرتا ہے۔ اس سلسلے کی پہلی میکانیت گزشتہ تحریر میں پیش کر چکا ہوں۔ اب آئیے دوسری میکانیت کو دیکھتے ہیں۔

مشابہت یا نقالی Imitation ایک ایسی مکانیت ہے جس میں بچہ اپنے والدین کے وہ طور طریقے، عادات و اطوار ، نظریات و خیالات اور رویے اختیار کرتا ہے جن سے وہ خود کراہت اور نفرت محسوس کرتا ہے (تفصیل میں جائے بغیر یہ عرض کرنے دیں کہ یہ ہومی بھابھا کے بیان کردہ تصور Mimicry سے مختلف ہے) بیان اور تفہیم کی آسانی کے لئے غصہ اس کی ایک اھم مثال ھو سکتا ہے۔ ھم سب غصہ کرتے ہیں اور سب کو اس کا تجربہ ہے۔ ذہن میں رکھیے کہ اکثر صورتوں میں خود راستی Self-righteousness غصے کو نظری بنیاد فراہم کرتی ہے۔ ھم سب یہ سمجھتے ہیں جس وجہ سے ھم نے غصہ محسوس اور اس کا اظہار کیا ہے اس پر غصہ آنا بالکل درست اور فطری ہے۔ غصے کا سبب بالعموم اخلاقی اور آفاقی خیال کیا جاتا ہے۔ آپ دوسروں سے سوال کرتے ہیں جس صورتحال میں آپ نے غصہ کیا وہ ہوتے تو کیا ایسا ہی نہ کرتے۔ غصے میں قتل کرنے والے، طلاق دینے والے، دوسروں کو ذہنی اور جسمانی ایذا پہنچانے والے سب یہی سوچتے اور اسی طرح اپنے غصے کو جواز فراھم کرتے ہیں۔ (لاہور میں سو سے زائد بچوں کا قاتل یہی دلیل دے کر خود کو اور دوسروں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا تھا ) ذرا آپ اپنے غصے کے اسباب اور اظہار پر غور فرمائیں آپ کو اکثر صورتوں میں اپنے غصے کے اسباب اور پیرایہ اظہار میں اپنے والدین کی جھلک نمایاں طور پر نظر آے گی۔ بچپن میں بچہ والدین کے غصے کا نشانہ بنتا ہے۔ اور اس غصے کو نہ صرف ناپسند اور بلاجواز سمجھتا ہے بلکہ اس کی شکایت بھی کرتا ہے۔ مگر غصے کے انہی اسباب پر اپنے والدین ہی کی طرح غصہ کرنا خود بھی شروع کر دیتا ہے۔ یعنی بچے نے وہ عادات اور رویے اختیار کر لئے جن کو اس نے غلط، ضرر رساں اور بلاجواز سمجھا تھا۔ اگر فرد کو والدین کے غصے پر تبصرہ کرنے کے لئے کہا جائے تو وہ والدین کو تنقید کا نشانہ بھی بناے گا مگر اس منفی رویے کو بہ تمام و کمال اختیار بھی کرے گا۔

ونکہ والدین کا غصہ بچوں کی تربیت میں بچوں کی اصلاح کے لئے ایک اھم ہتھیار سمجھا جاتا ہے اس لئے بچہ بھی یہ سمجھتا ہے کہ یہ منفی رویہ بہت سی صورتوں میں انتہائی مفید اور کارآمد طریقہ ہے۔ ھم جانتے ہیں کہ والدین کا غصہ اپنی بات بذریعہ دلیل نہ پہنچا سکنے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس لئے بچہ بھی دلیل کے ناقابل استعمال ہونے اور غصے کے مفید ہونے کا قائل ہوتا ہے۔

اس گفتگو کی روشنی میں استعمار اور محکوموں کے تعلق کو دیکھئے۔ استعمار کی منصوبہ بندی کے نتیجے میں ہونے والی جنگوں نے عراق میں پندرہ لاکھ اور شام میں چار لاکھ انسانی جانیں نگل لیں۔ کچھ اور جنگوں میں انسانی جانوں کے ہونے والے نقصان کا خیال ہی دل و دماغ کو ماؤف کر دیتا ہے۔ اس پر محکوموں کا غصہ لازمی، لابدی اور قابل تفہیم ہے۔ ہمارے دانشور اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس غصے کی توجیہ و توضیح بھی کرتے ہیں۔ لیکن مسائل وہاں بگڑتے ہیں جب اس غصے کے زیر اثر استعمار جیسی پر تشدد حکمت عملی اختیار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آئیے اس حکمت عملی کو اختیار کرنے کے نقصانات پر نظر ڈالتے ہیں۔

یہ بات تو مجھ سے مبتدی طلبا پر بھی عیاں ہے کہ محکوموں کا قتل بہت سی صورتوں میں استعمار کی عملی ہی نہیں نفسیاتی ضرورت بھی ہوتا ہے۔ لیکن وجوہات خواہ کچھ ہی ہوں استعمار اس قتل و غارت گری کی عمدہ منصوبہ بندی کرتا ہے۔ یہ منصوبہ بندی اپنے وسائل کی روشنی میں اپنے مفادات کے حصول کی خاطر کی جاتی ہے۔ تبدیل ہوتے حالات اور وسائل کے نتیجے میں حکمت عملی تبدیل کی جاتی ہے۔ کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ استعمار کا تشدد غصے کی بجائے سوچی سمجھی حکمت عملی پر مبنی ہوتا ہے۔ (ابو غریب جیل میں اختیار کیے گئے تشدد کے طریقے اس کی ایک معمولی مثال ہیں ) جبکہ محکوم کا تشدد صرف اور صرف غصے پر مبنی ہوتا ہے۔ غصے میں جانب مخالف کو ضرر پہنچانا خود کو فائدہ پہنچانے سے زیادہ تسکین دیتا ہے۔

\"drذرا یاد کیجئے ایک اسلامی ملک (کویت) پر ایک اور اسلامی ملک (عراق) نے حملہ کرکے قبضہ کیا۔ استعمار نے عراق کو کویت سے نکل جانے کا کہا۔ عراقی صدر صدام حسین نے انکار کر دیا۔۔۔۔۔ صرف اس انکار نے صدام حسین کو راتوں رات پاکستانی مسلمانوں کا ہیرو بنا دیا۔ لاہور کی مال روڈ پر صدام حسین کے قد آدم پوسٹر نہ صرف آویزاں تھے بلکہ دھڑا دھڑ بک رہے تھے۔ ایک غیر قانونی اور غیر انسانی حرکت کے کے بعد اس پر اصرار کرنے کے علاوہ صدام حسین کا کارنامہ اور کیا تھا؟ استعمار کے خلاف صرف ہمارے غصے نے صدام جیسے شخص کی پرستش پر مجبور کر دیا۔ تاریخ اور سیاست سے با خبر اصحاب درجنوں ایسے مردان حق و ایمان کی مثالیں گنوا سکتے ہیں کہ جہاں صدام حسین جیسے بیمار افراد کو نجات دھندہ اور ہیرو سمجھ لیا گیا۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ تباہی اور مزید بربادی کے علاوہ اور کیا نکلنا تھا۔

میں اس بات پر اصرار کرتا ہوں کہ یہ غصہ استعمار کی ایک منصوبہ بندی کے تحت پیدا کیا جاتا ہے۔ اور اسکی شدت اور سمت کا تعین بہت سوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ لیکن مسلہ محکوموں کا اس پر تشدد راستے کو بلا سوچے سمجھے اپنی راہ نجات سمجھنے، اس کی بنیاد پر اپنی حکمت عملی ترتیب دینے اور اس کی تبلیغ سے شروع ہوتا ہے۔ گو یہ غصہ استعمار کی پر تشدد حکمت عملی کے رد عمل کے طور پر ظاہر ہوتا ہے مگر اس کو صحیح اور صائب ثابت کرنے کے جواز تراشے جاتے ہیں مقدس کتاب کی آیات، مقدس ترین ہستیوں کے فرامین اورشاعروں کے اشعار کو قطع و برید کے ساتھ استعمال میں لایا جاتا ہے۔ ماضی کی جنگوں کی جھوٹی سچی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں۔ اور اس طرح غصے کی بنیاد پر استوار ہونے والی پر تشدد کارروایوں کے عقلی اور اخلاقی جواز ڈھونڈھے جاتے ہیں۔ جذباتی فیصلوں کے لئے عقلی دلیلوں کی اصابت اور حقیقت تو سکول کے کسی بچے سے بھی پوچھی جا سکتی ہے۔

استعمار زدہ معاشروں کے تمام افراد غصے اور بے بسی کے مریضانہ احساس میں مبتلا ہوتے ہیں۔ معاشرے کے مختلف گروہ اور ان گروہوں کے افراد میں یہ غصہ ایک مختلف شدت اور ایک مختلف پیرایہ اظھار کے ساتھ موجود رہتا ہے۔ بعض گروہ اس غصے کے اظھار کے لیے پرتشدد کارروایوں کا اہتمام کرتے ہیں اور استعمار کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ استعمار کو کامیابی سے نشانہ بنانا آسان نہیں رہا ہرروز گیارہ ستمبر 2001 نہیں ہوتا۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ استعمار کو نشانہ بنانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ لیکن غصہ بہر حال موجود ہے اور استعمار کے رد عمل میں اسی کے طریق کار کو انتخاب کرنے کا فیصلہ بھی ہو چکا۔ غصے کے تکلیف دہ احساس سے نجات اور استعمار کے خلاف کامیابی کی کوئی صورت دور دور تک دکھائی نہیں دیتی ایسے میں محکوم معاشرے خود کش حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔ اس حکمت عملی کے دو پہلووں کو دیکھئے۔ ایک تو استعمار کے خلاف کامیابی کے لئے خود کش حملوں کی انتہا تک جایا جاتا ہے۔ اپنی افادیت کھونے کے باوجود اگر خود کش حملے جاری رہیں تو یہ نتیجہ نکالنا آسان ہو جاتا ہے کہ یہ حملے کسی حکمت عملی کا حصہ نہیں بلکہ نفسیاتی شکست کا ثبوت اور ذہنی پیچیدگی کی علامت ہیں۔ دوسری طرف استعمار سے لڑتے لڑتے محکوم معاشرے کے مختلف گروہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف وہی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں جو ابتدا میں استعمار کے خلاف استعمال کی گئی تھیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات میں وہی گروہ آگے رہے ہیں جنہوں نے استعمار کے خلاف ایک ہاری ہوئی جنگ کا برسوں پہلے آغاز کیا تھا۔

استعمارکے خلاف جنگ میں استعمار ہی کی اندھی پیروی میں صرف پر تشدد راستوں کا انتخاب، ان کے ساتھ جڑے رہنے پر اصرار، اور اس کے لئے جواز تراشنے کی مسلسل کوشش کو ڈاکٹر اختر احسن کی اصطلا ح میں Imitation کہا جاتا ہے۔ میں عرض کر چکا ہوں ایسے میں استعمارکے صرف ان طریقوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جن کو محکوم غلط اور قابل تنقید سمجھتا ہے۔۔۔۔۔۔ دو مذہبی علماء کی گفتگو یو ٹیوب پر دیکھی جاسکتی ہے جس میں ایک صاحب یہ فرمارہے ہیں کہ اگر امریکہ بزور طاقت اپنا نظام مسلط کر سکتا ہے تو مسلمان ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔ اہم سوال یہ ہے کہ دوسروں کے قبیح افعال میرے نامناسب اور معیوب کاموں کو کس طرح جواز فراھم کر سکتے ہیں۔ لیکن یہاں سوال جواز اور عدم جواز یا صحیح اور غلط کا نہیں ہے بلکہ اس رد عمل کا ہے جو اظھار کے لئے راستے ڈھونڈھ رہا ہے۔۔۔۔۔ معاشروں کی زندگی کے اس مرحلے میں جب استعمار کے غلط طریقوں پر عمل کرنا محکوم معاشروں کی صفت ثانیہ بن جائے تپ یہ طریقے محکوموں کی زندگی کے تمام گوشوں کو متاثر کرتے ہیں ذاتی تعلقات میں نمایاں ہوتے اور روز مرہ زندگی اور تو اور خاندانی امور پربھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ بڑھتے بڑھتے نوبت یہاں تک پہنچتی ہے پر تشدد طریقوں کو اختیار کیے بغیر کوئی بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتا۔ ایسے میں اپنی حفاظت کی یقینی بنانے اور سمجھنے کا صرف ایک راستہ بچتا ہے کہ آپ کے پاس پر تشدد ہونے کی پوری صلاحیت اور وسائل موجود ہوں۔ ایسے میں قانون کی بجاے ہر کوئی اپنے قوت بازو پر بھروسہ کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں استعمار کے خلاف ایک بے سمت جنگ کس طرح معاشرے کے تار و پود بکھیر کر رکھ دیتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ ھم اس مقام پر استعمار کے طریقوں کے دور رس اثرات کو بآسانی دیکھ سکتے ہیں۔

پاکستان کے مذہبی طبقوں کی پر تشدد کارروائیاں کرنے والوں کی حمایت اسی میکانیت کے زیر اثر تھی۔ ان حلقوں کا خیال تھا کہ طالبان ہر اندرونی اور بیرونی مخالف کا بزور طاقت خاتمہ کریں گے اور علماء اس کاوش کا سیاسی، اخلاقی اور مذہبی جواز فراھم کریں گے۔ پاکستانی مسلمانوں کے خلاف ہونے والے حملوں کا جواز امریکی ڈرون حملوں میں ڈھونڈھنے کی کوششیں میری گزارش کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ غور فرمائیں۔۔۔ اگر امریکہ طالبان کو ڈرون حملوں میں ہلاک کردے تو اس کے جواب میں طالبان پاکستان کے شہریوں کو نشانہ بنانے میں حق بجانب ٹھہریں۔۔۔۔۔ پر تشدد گروہ ایک تو استعمار کا بال بیکا نہ کر سکے دوسری طرف پاکستان فوج کی کامیابیوں نے انھیں پسپائی پر مجبور کر دیا اس پر مذہبی طبقوں کی مایوسی اور چڑ چڑاپن سمجھنے کے لئے ماہر نفسیات ہونا ضروری نہیں۔

(جاری ہے)

پچھلی اقساط

https://www.mukaalma.com/archives/4843

https://www.mukaalma.com/archives/4778

https://www.mukaalma.com/archives/4729

https://www.mukaalma.com/archives/4682

انتہا پسندی اور رد عمل کی نفسیات- 6

Advertisements
julia rana solicitors london

انتہا پسندی اور رد عمل کی نفسیات- 5

انتہا پسندی اور رد عمل کی نفسیات- 4

انتہا پسندی اور رد عمل کی نفسیات (3)

انتہا پسندی اور رد عمل کی نفسیات (2)

انتہا پسندی اور رد عمل کی نفسیات (1)

یہ تحریر اس سے قبل ہم سب پر شائع ہو چکی ہے

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”انتہا پسندی،ردِ عمل کی نفسیات۔قسط11

  1. Sayyidi, Excellent ?

    استعمار کا تشدد غصے کی بجائے سوچی سمجھی حکمت عملی پر مبنی ہوتا ہے، جبکہ محکوم کا تشدد صرف اور صرف غصے پر مبنی ہوتا ہے۔

    اپنی افادیت کھونے کے باوجود اگر خود کش حملے جاری رہیں تو یہ نتیجہ نکالنا آسان ہو جاتا ہے کہ یہ حملے کسی حکمت عملی کا حصہ نہیں بلکہ نفسیاتی شکست کا ثبوت اور ذہنی پیچیدگی کی علامت ہیں۔

Leave a Reply