انسانی حقوق کی حقیقت

انسانی حقوق کی حقیقت
عاصم اخوند
ترجمہ : مشتاق علی شان
موجودہ دور میں انسانی حقوق کا نعرہ عام ہو گیا ہے ،لفظ’’حق‘‘ ایک عام اصطلاح ہے جس کی تشریح ہر گروہ ،فریق یا طبقہ اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کرتا ہے ۔مثال کے طور پر سندھ کی قومی آزادی کی سیاست کے لیے انسانی حقوق سے مراد سندھ کے عوام کی آزادی ہے ،لیکن اس کے برعکس پاکستانی ریاست کے لیے ’’ انسانی حقوق‘‘الگ ہی معنی رکھتے ہیں ۔ امریکی سامراج کے لیے وہ تمام ریاستیں جو اس کے مفادات سے نہیں ٹکراتی وہ انسانی حقوق کا تمسخر اڑا رہی ہیں ۔جاگیر دار کا قانونی طور پر ’’ انسانی حق‘‘ یہ ہے کہ وہ زمین کا مالک ہو اور کسان اس کے دست بستہ غلام ہوں ،لیکن کسان کے نزدیک انسانی حق سے مراد ظالم جاگیردار سے نجات ہے ۔اس ساری بات کا مقصد یہ ہے کہ معاملات کو سمجھے بغیرعام اصطلاحات کا استعمال خود اُلجھن کا باعث ہے۔
انسانی تاریخ کے ارتقائی عمل میں حقوق کے انسانی ہونے میں ایک طویل عرصہ لگا ہے ۔جدید سرمایہ دارانہ نظام سے قبل ’’انسانی حقوق ‘‘ سیاسی اقتصادی جدوجہد اور تحریکوں کا حصہ نہیں تھے ۔یہ سرمایہ دارانہ نظام ہی ہے جو انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کی بنیادوں کو واضح کر کے سامنے لایا ہے۔سرمایہ دارانہ دور سے قبل سیاسی اور اقتصادی حقوق ،دنیاوی یا انسانی نہیں بلکہ الہیاتی حقوق تھے ۔اُس دور میں اگر کچھ خاندان بادشاہت کا دعویٰ کر رہے تھے تو وہ سیاسی،اقتصادی اور قانونی بنیادوں پر نہیں تھے بلکہ اس کی صورت مذہبی یا الہیاتی تھی۔
سیکولرازم نے پہلے پہل خدائی حقوق کو انسانی حقوق میں تبدیل کیا ،اس طرح مذہب انسانیت میں تبدیل ہو گیا۔ تاریخ کے گزشتہ ادوار میں انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال دینی اور مذہبی معاملات میں الجھا ہوا تھا اور عام محنت کش انسان جو مظلوم ہیں ،ان کے سارے حقوق ظالموں کے پاس تھے ۔دوسرے لفظوں میں ان کے سارے حقوق بادشاہوں اور سرداروں کے پاس ہی تھے اوران کو لوٹ کھسوٹ کرنے اور حکومت کرنے کا حق ،مُلا، پنڈت، پادری اور پیر وغیرہ خدائی حق کی صورت میں دے رہے تھے۔یعنی سرمایہ دارانہ سماج سے قبل کے نظاموں میں اس دنیا کے مسائل مذہب کی وجہ سے دینی مسئلے بن گئے تھے اور یوں یہ سیاسی ،اقتصادی اور قانونی مسئلے رہے ہی نہیں ۔
سائنسی ارتقا کے نتیجے میں عالمگیر(Worldly)نظریات کی نشوونما ہوئی اور اس طرح دین اور دنیا کے معاملات الگ ہوگئے۔ آج کوئی بھی حاکم طبقہ یا گروہ عوام کی بات کرنے یا انسانی حقوق کے نعرے کے بغیر مزدوروں ،کسانوں اور محنت کاروں کا استحصال جاری نہیں رکھ سکتے۔دوسرے لفظوں میں بادشاہ یا حکمران کو آج اس کی ضرورت ہی نہیں رہی کہ لوگوں پر حکمرانی کرنے کے سلسلے میں ملا،پیر ،پنڈت اور پادری سے خدائی فتوے کے ذریعے اپنے راج کی تصدیق کرائے۔
سائنسی اور تیکنکی انقلاب کے نتیجے میں عوام کی ذہنی سطح بھی تبدیل ہوئی ہے ۔آج عوام مذہب کے اس خیال سے متفق نہیں ہیں کہ ہمیں پیدا ہی مظلوم ومحکوم کیا گیا ہے،اس لیے موجودہ دور میں عوام کی سیاسی تحریکوں اور جدوجہد کا ظہور ہو رہا ہے۔جیسے جیسے انسانی تاریخ کے ادوار تبدیل ہوتے ہیں ویسے ویسے جاگیردار اور سرمایہ دار بھی خود کونیا اور تازہ وتوانا کرتے رہتے ہیں ۔کسانوں اور محنت کشوں کا استحصال اسی طرح جاری ہے لیکن اس کے طریقے تبدیل ہو جاتے ہیں ،لفظ اور اصطلاحات معدوم ہوجاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آج ظالموں کا راج کسی بھی الہیاتی طاقت کی تصدیق کے بغیر انسانی حقوق اور عوامی طاقت کی بنیادوں پر قائم ہے۔ انسان کا انسان کے ہاتھوں استحصال آج کے دور میں براہِ راست ننگا ہوکر انسانی طاقت ہی کی بنیاد پر جاری وساری ہے ۔ان معنوں میں انسانی حقوق کا نعرہ ظالموں کے راج کا دفاع ہے۔
انسانی حقوق کی جدوجہد دراصل سماج میں موجود مختلف طبقات کے مفادات کا قانونی اظہار ہے۔ کارل مارکس نے ’’ کمیونسٹ مینی فیسٹو‘‘ میں لکھا ہے کہ’’ سرمایہ دارانہ نظام میں آزادی اور انسانی حقوق سے مراد یہ ہے کہ آزاد منڈی اور منافع خوری کے حق کی آزادی اور سرمایہ داروں کے لیے محنت کش طبقے کی آزادی‘‘۔اس معنی میں آزادی،حق اور برابری کی تجریدی اصطلاحات کی چھان بین کی جائے تو ہر طبقے کے پاس ان صطلاحات کے الگ الگ معنی ہیں۔ہر طبقہ ننگے اور عریاں طور پر اپنے مفادات کا اظہار نہیں کرتا اور اپنے طبقاتی مفادکو سارے سماج کا مفاد بنا کر پیش کرتا ہے۔ جیسے امریکی سامراج نے عراق کے تیل پر قبضہ کرنے کے لیے انسانی حقوق اور آزادیوں کی اصطلاحات کو استعمال کیا اور یوں امریکی سامراج سرمایہ دارانہ استحصالی مقصد کو ساری انسانیت کا مسئلہ بنا کر سامنے لایا ۔
کارل مارکس وہ پہلے مفکر تھے جنھوں نے انسانی حقوق کی اس گتھی کو سلجھایا۔کارل مارکس کا خیال تھا کہ ریاست انسانی سماج کی بیگانگی ہے اور یہ سماج میں موجود ذاتی اور سماجی مفادات کے تضادات کی پیداوار ہے ۔مارکسزم کے نقطۂ نظر سے ریاست سماج کی تجریدی(Abstract)صورت ہے ،اس لیے جب کوئی بھی طبقہ سیاسی عمل کے دوران ریاستی شکل میں تبدیل ہونا چاہتا ہے تووہ طبقہ بھی اپنا اظہار ریاستی تجریدی انداز میں کرتا ہے ۔ریاستی قانون میں لکھے ہوئے یہ الفاظ کہ ’’ سب انسان برابر ہیں اور سب کو ایک جیسے حقوق حاصل ہیں ‘‘یہ دراصل سماجی حقائق کو دھندلا اور مبہم بناتے ہیں کیونکہ طبقاتی سماج کی ریاست میں قانون ذاتی ملکیت کے دفاع کے لیے ہی کھڑا ہوتا ہے۔
انسانی حقوق کا ایک دوسرا پہلو تحریری طور پر موجود حقوق سے تعلق رکھتا ہے۔ انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں کی دستاویزات اور اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دستاویزتحریری طور پر
مظلوم انسانیت کا دفاع کرتی ہے ۔اگر عالمِ انسانیت کو تحریر کے نقطہ ء نظر سے دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر سماج اور اس کے ہر فرد کے حقوق محفوظ ہیں ۔لیکن مارکس کے مطابق سماجوں کو دیکھنے کا یہ طریقہ کار اُلٹا اور خیالی بنیادوں پر مشتمل ہے ۔ تاریخی مادیت کے نقطہ ء نگاہ سے انسانی سماجوں کو تحریر کے خیال سے نہیں بلکہ سماجی اقتصادی رشتوں اور تعلقات کے خیال سے ہی سمجھا جا سکتا ہے ۔مثال کے طور پر 1947 ؁ء میں سندھ نے تحریری طور پر پاکستان میں شمولیت اس معاہدے کے تحت کی تھی کہ سندھ کی صوبائی خود مختاری قائم ودائم رہے گی، لیکن پاکستان میں موجود آمرانہ راج نے ان لکھے ہوئے الفاظ کی کوئی پرواہ نہیں کی۔یعنی سماج میں موجود طبقات کی سماجی اور اقتصادی لڑائی نے انسانی حقوق کی الگ الگ تشریح کو جنم دیا۔
انسانی تاریخ میں اجرتی مزدوروں(Wage Labourers)نے کمیونسٹ تحریک کی شکل میں یہ پہلی لڑائی لڑی ،جس میں انھوں نے واضح طور پر اپنے طبقاتی مفادات کا اظہار کسی بھی مبہم نظریاتی خول اور تجریدی اصطلاح کے بغیر کیا ۔کیونکہ محنت کش طبقے کی تحریک استحصالی راج کے دفاع کی تحریک نہیں تھی بلکہ یہ ایک غیر طبقاتی نظام تعمیر کرنے کی تگ و دومیں تھی۔مارکسزم کی تعلیمات کے مطابق ایک طبقاتی سماج میں ایک کمیونسٹ راہنما سرمایہ دار بالائی طبقات کے لیڈروں کی طرح سارے سماج کی نمائندگی کا جھوٹا دعویٰ نہیں کر سکتا، بلکہ ایک کمیونسٹ راہنما سیدھے اور واشگاف لفظوں میں مظلوم مزدوروں کسانوں اور مظلوم قوموں کی نمائندگی کا دعویدار ہے۔اور یہی بنیادی حقیقت کمیونسٹ تحریکوں کو دیگر تمام نعرہ باز تحریکوں سے جدا اور ممتاز کرتی ہے۔ایک کمیونسٹ کے نزدیک انسانی حقوق سے مراد محنت کش طبقے کے مفادات کا دفاع ہے۔

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply