urdu - ٹیگ     ( صفحہ نمبر 3 )

پشاور کے غنڈے اور کراچی کی روبی۔۔۔۔۔عارف خٹک

رات کو محترمہ ڈاکٹر ساجدہ سلطانہ نے اکبر الہ آبادی کے حوالے سے منعقد کئے گئے ایک پروگرام میں مُجھے اور عابد آفریدی کو مدعو کیا۔ حالانکہ جامعہ بنوریہ سے سلمان ربانی صاحب کی دعوت تھی مگر سلمان ربانی بھائی←  مزید پڑھیے

رانی ۔۔۔ معاذ بن محمود

رانی کی نظر کونے میں لیٹی بیٹی شہزادی پر پڑی جس کی آنکھیں باپ کے خوف سے بند ہونے کے باوجود نم تھیں۔ اگلے کئی لمحات بشیرے کی جانب سے رانی کے بدن کو فتح کرنے کے سراب میں اپنی شکست سے آنکھیں پھیرنے میں صرف ہوئے۔ وہ لاکھ کوشش کے باوجود اب تک اس تمام عمل کی عادی نہ ہوپائی تھی۔ جس رات بشیرے کا نشہ زیادہ ہوتا یہ جنگ جیسے لامتناہی مدت پا جاتی۔ آج بھی یہی معاملہ تھا۔ ←  مزید پڑھیے

ول یو بی مائی ویلینٹائن؟ ۔۔۔ معاذ بن محمود

میرے ہونے والے نئے جانو۔۔۔ بعد سلام، جو میں نے کیا ہی نہیں، اور کروں بھی کیوں کہ میری ادائیں اور میرے نخرے مجھے روکتے ہیں، عرض ہے، بلکہ حکم سمجھو کہ میں اپنے موجودہ بوائے فرانڈ سے اکتا چکا←  مزید پڑھیے

منظور پشتین سے انٹرویو۔۔۔۔۔ عبدالحنان ارشد

ایڈیٹر نوٹ: ادارہ مکالمہ یہ بات واضح کرتا ہے  کہ  یہ انٹرویو  آزادی اظہار رائے  کی روح کے تحت شائع کیا جا رہا ہے۔  ادارہ انٹرویو کے مندرجات سے بری الذمہ ہے۔ انٹرویو ور نوٹ: اس انٹرویو کو کرنے کی←  مزید پڑھیے

باغی کون؟ آپ یا ہم گوبھیاں؟ ۔۔۔ معاذ بن محمود

حضور والا، راؤ انوار نے کون سا کشتہ یا کون سی سلاجیت کھائی ہے کہ اس کے پاس اس قدر طاقت آگئی کہ چار سو قتل کر کے بھی وہ اپنے گھر میں عیاشی کر رہا ہے؟ سرکار، آپ لوگ بندوق والوں کی جی حضوری کرتے ہوئے کہتے ہیں انہوں نے بالکل خواتین کی بے حرمتی نہیں کی۔ ہم آپ سے مکمل اتفاق کرتے ہیں۔ خواتین سے دراندازی کا امکان ہم کم از کم پاک فوج کی جانب سے مکمل رد کرتے ہیں۔ ہمارے جوان اس نہج پر ہرگز نہیں جا سکتے۔ لیکن حضور، آپ کے کئی حوالدار یہ بات برملا مانتے ہیں کہ آپ ہی کے لوگوں نے خیسور کے حیات خان کے گناہوں کے بدلے اس کے باپ اور بھائی کو اٹھایا ہوا ہے۔ اور پھر آپ کہتے ہیں نامعلوم افراد بندے غائب نہیں کرتے؟ جناب عالی، سانحہ ساہیوال بیج بونے والی ریکی کس نے کی؟ آپ نمبر ون ہیں، جہاں تک ہمیں آپ کے حوالدار بتاتے ہیں۔ کیا یہ سوال اٹھانا ناجائز ہے کہ ایسے کتنے اور واقعات پیش آئے جہاں معصوم افراد کو دہشتگرد بنا کر ان کے اہل خانہ کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگایا جا چکا ہے؟ حضور، کیا ہم نہیں جانتے کہ نقیب اللہ جیسے جوان سمیت چار سو افراد کو قتل کرنے والا راؤ انوار ذاتی حیثیت میں ہرگز اس قدر طاقتور نہیں ہو سکتا کہ اسے چھوا بھی نہ جا سکے؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ ریاست پاکستان میں وہ کون سی واحد طاقت ہے جس کے آگے تمام ادارے تمام قانون اور ضابطے بے بس پڑ جاتے ہیں؟ سرکار، کیا یہ حقیقت نہیں کہ راؤ انوار نے یہ سینکڑوں قتل اس دور میں کیے جب رینجرز کو سندھ میں کھلی چھوٹ ملی ہوئی تھی؟ ←  مزید پڑھیے

ہمیں مزید لاشیں نہیں چاہییں ۔۔۔منصور ندیم

بچپن سے اکثر یہ دیکھا تھا کہ مختلف مذہبی مواقع پر ذاکرین حضرات یا ہمارے کچھ خطیب حضرات وعظ کے دوران کسی بھی واقع کو اس قدر مبالغہ اور جذباتی کیفیات کے ساتھ سنا کر اس واقعے کی اصل فکری←  مزید پڑھیے

ہو جس سے اختلاف اسے مار دیجیے ۔۔۔ معاذ بن محمود

آج اگر ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ پولیس کے زیر حراست قتل ناجائز ہے تو پہلے اس ناجائز کو منطقی انجام تک پہنچائیے۔ جب خود کش دھماکے ہو رہے تھے تو ہمیں بیک آواز ان کی مذمت کرنی تھی پھر چاہے خود کش کے ذہن میں ستر حوریں چل رہی ہوں یا پھر ان کی برین واشنگ ہوئی ہو۔ جو سوالات ایک کھلے قتل کو سازش ثابت کرنے کے لیے آپ اٹھا رہے ہیں وہ ذیلی ہیں۔ اصل اور اہم ترین مدعا یہ ہے کہ یہ قتل ہوا ہی کیوں۔ احتجاج کرنے والے کو پولیس اٹھا کر کیوں لے کر گئی۔ کیا دھاندلی کے خلاف کنٹینر پر احتجاج کرنے والا، یا عدلیہ بحالی لے لیے لانگ مارچ کرنے والا کسی پشتون کے احتجاج کی نسبت زیادہ حق رکھتا ہے؟ اگر نہیں تو جو حق انہیں تھا آج اپنا پرامن احتجاج کرنے والوں کو کیوں نہیں؟←  مزید پڑھیے

مردِ آہن ۔۔۔ معاذ بن محمود

یہ ایک وسیع ہال تھا جسے انگریز کے زمانے میں کوئلہ ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ یہاں دیواروں پر رنگ کی تہہ در تہہ جمی پڑی تھی جسے ذرا سا کھرچنے پر کوئلے کی کالک حال کو←  مزید پڑھیے

بدلتے رنگ اور کتے کے آنسو ۔۔۔ محمد اشتیاق

ہمارے وزیر اعظم صاحب جو پودوں کو پانی نہ ملنے پہ دکھی ہو جاتے تھے خاتون اول جو مذہبی طور پہ کتوں کو نحس سمجھتی تھیں لیکن ایک "کتے" کی آنکھ میں آنسو دے کہ اپنے مذہبی نکتہ نظر میں تبدیلی پیدا کر کے اسے گھر میں رکھنے پہ آمادہ ہو گئیں آج 3 بچوں کے کپڑوں پہ خون دیکھ کہ کتنی دکھی ہوئی ہوں گی۔←  مزید پڑھیے

ٹنڈو بہاول سے ساہیوال تک ۔۔۔ معاذ بن محمود

وہ دونوں اپنے ہنستے بستے گھرانے کی تباہی کے بدلے انصاف مانگنے سربازار کھڑی ہیں۔ زندگی کا بوجھ اٹھائے وہ حاکم وقت سے انصاف کی بھیک مانگ مانگ کر تھک چکی ہیں۔ رات ماں سے لپٹ کر دونوں جس قدر ممکن ہوا جی بھر کر رو چکی ہیں۔ آنسو ہیں کہ خشک ہیں۔ زندگی اب ویسے بھی بے معنی ہے کہ ان کے محافظ منوں مٹی تلے دفنائے جا چکے ہیں۔ ماں کی پتھرائی آنکھیں اور معاشرے کی بے حسی اب انہیں احساس سے ماورا اقدام کی چٹان پر کھڑا کر چکے ہیں۔ ان کا احتجاج اب ایک تماشے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ شاید فیصلہ ہوچکا ہے تبھی تاخیری حربے آزمائے جارہے ہیں۔ مگر فیصلہ ان دونوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔ شاید کوئی اور ہوتا تو رو دھو کر خاموش ہوجاتا لیکن ہر کوئی کہاں ان دونوں کی طرح ضدی ہوا کرتا ہے؟←  مزید پڑھیے

حاجی صاحب کا اسلامی ائیر لائن میں پہلا سفر ۔۔۔ معاذ بن محمود

دورانِ سفر قصیدہ بردہ شریف کے پر کیف الفاظ ہمیں ریاست مدینہ اوّل میں لے گئے تھے۔ اس پر مزید بہتری یوں ہوئی کہ سفر کے دوران کھانے میں دو عجوہ کھجوریں اور نصف کپ اونٹنی کا دودھ ملا۔ واللہ سفر کا مزہ دوبالا ہوا۔ مزید بھوک محسوس ہوئی تو ہم نے جیب سے کے ایف سی کا بچا ہوا زنگر نکال کر پیٹ کے تین حصے بھرے۔ ایک حصہ خالی چھوڑنا ضروری تھا لہذا جہاز کے استنجا خانے میں جا کر مارلبرو کی بیڑی پھونکی کہ خالی حصے میں کچھ ہوا بھر جائے تاکہ تین حصے کھانا اس حصے پر قابض ہونے سے باز رہے۔ بخدا بندے کی نیت صاف ہو تو اللہ تبارک و تعالی دماغ میں کوئی نہ کوئی راستہ سجھا ہی دیتا ہے۔ ←  مزید پڑھیے

دانشور کون؟ ۔۔۔ محمد اشتیاق

اسی طرح کچھ دانشوروں نے باقاعدہ سیاسی جماعتوں کی غیر اعلانیہ ترجمانی شروع کردی۔ جس پروگرام میں وہ حاضر ہوں وہاں اس سیاسی جماعت کی طاقت ویسے ہی دوگنی ہو جاتی تھی۔ فوج اور ڈکٹیٹرشپ کی اشاروں کنایوں میں حمایت کا سلسلہ سیاسی معاملات میں بھی جاری تھا، ٹی وی چینلز نے فوجی اور جنگی مسائل تو ایک طرف، فوجی جرنیلوں کو سیاسی، قانونی، معاشی معاملات پہ تجزیہ نگار کے طور پہ بلانے کا آغاز کیا۔ یہ موضوع تو خیر ایک بڑی بحث کا متقاضی ہے۔ موضوع سخن یہ سیاسی، جماعتی دانشور کارکن ہیں جو مختلف مسائل کا، ترقی کا حل بلاوجہ ایک سیاسی پارٹی کا حکومت میں آنا بتاتے رہے۔ ←  مزید پڑھیے

قارئین کرام کی مختلف اقسام ۔۔۔ معاذ بن محمود

پچھلے چند سالوں میں انٹرنیٹ پر اردو لکھت پڑھت کے حوالے سے کافی مثبت پیش رفت ہوئی۔ تیزی سے معدوم اور رومن رسم الخط کے ہاتھوں برباد ہوتی اردو نے ایک بار پھر سوشل میڈیا کے ذریعے عام آدمی تک←  مزید پڑھیے

کون سا والا تِل؟ ۔۔۔ محمد اشتیاق

  “سب سے پہلے ہم ہارڈ ڈسک کو فارمیٹ کرتے ہیں”، خرم نے اپنی آنکھوں کی چمک کو کم کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے پیشہ ورانہ انداز اپنانے کی کوشش کی۔   عمل نے آنکھ کے کونے سے ٹھنڈی←  مزید پڑھیے

پستان اور مرد ۔۔۔ حسن کرتار

“تیرے پستانوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے!” ہائے  تمہاری آنکھیں تمہاری زلفیں تمہاری کمر یہ چال۔۔۔ ایسی یا اس سے ملتی جلتی باتوں سے اردو شاعری اور لٹریچر بھرا پڑا ہے۔ مگر پستانوں کے متعلق بہت کم باتیں←  مزید پڑھیے

سوشل میڈیا کے خودساختہ دانشوروں کے نام ۔۔۔ عبد اللہ خان چنگیزی

سوشل میڈیا یا سادہ الفاظ میں سماجی رابطوں کے ذرائع پر آج کل لاتعداد ایسے حضرات کی بھر مار ہے جو خود کو کسی بھی موضوع پر بحث و مباحثہ کرنے کا اہل سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ایسا کوئی←  مزید پڑھیے

موٹیویشنل سپیکنگ ۔۔۔ معاذ بن محمود

آپ نانبائی ہیں اور گاہک آپ سے بدتمیزی سے بات کر رہا ہے تو آپ تندور میں خاموشی سے تھوکنا شروع کر دیجیے۔ گاہک جا وقت تھوک والی روٹی خوشی خوشی آپ کو ذلیل کر کے اپنی جیت کے احساس کے ساتھ گھر لے جا رہا ہوگا عین اسی وقت آپ ایک کمینی سی خوشی محسوس کر رہے ہوں گے جو آپ کو موٹیویٹ کرے گی۔ آپ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ ہیں اور کسی بات پر غصہ ہے تو پروڈکشن سرور ڈاؤن کر کے نیٹورک ٹیم پر الزام لگا دیجیے۔ آپ خاتون خانہ ہیں اور بچوں پر تپی ہوئی ہیں تو اپنے شوہر سے الجھنا شروع کر دیں اسے ٹھنڈا ٹھنڈا جلانا شروع کر دیں، سکون پائیں گی۔←  مزید پڑھیے

روم کیسے تباہ ہوا؟ ۔۔۔ رؤف کلاسرہ

  امریکہ دو سال سے نہیں آیا تھا۔ سچ پوچھیں تو پچھلے دو سال پاکستانی سیاست اور میڈیا میں ایسے گزرے جیسے آپ رولر کوسٹر پر بیٹھے ہوں ۔ کئی دفعہ باہر جانے کا پروگرام بنا لیکن ہر دفعہ ملکی←  مزید پڑھیے

ووٹ بھٹو سائیں کا ۔۔۔ کمیل بن زیاد

رپورٹر:- چھا حال ہے بابا۔۔ غریب ہاری:- سائیں اللہ بھلی کرے اچھی گزر رہی ہے۔ رپورٹر :- بابا کتنے بچے ہیں۔ ہاری:- سائیں چار بچے ہیں۔ ایک اسکول میں پڑہتا ہے، دو بیٹیاں میرے ساتھ وڈیرے کے کھیتوں میں کام←  مزید پڑھیے

کتھارسس یا قانون کی حکمرانی؟ ۔۔۔۔۔۔آصف محمود

دو خواتین کے لاشے سڑک پر پڑے ہیں ۔ ایک بوڑھی ماں ہے اس کا لاشہ اوندھے منہ پڑا ہے ، دوسری شاید اس کی بیٹی ہے ۔ ہجوم جمع ہے ۔ ایک صاحب کے ہاتھ میں موبائل ہے ،←  مزید پڑھیے