آکسیجن کی کمی سے مر گئے سارے شجر گر اُدھر تھیں ٹہنیاں تو سب پتاور تھے ادھر آبشاروں کی چھنک میں درد تھا شوخی نہ تھی اور دریا زرد تھے، کہتے نہیں تھے کچھ مگر کالے رسوں سے بنا تھا← مزید پڑھیے
چاند کے سنگ اک، تارا ہردم دیکھا ہے چپکے، چپکے رین کتھا، جو کہتا ہے منزل ،منزل دیکھ، کٹھن ہے جیون کی ہر اک گام پہ ، کالا اژدر ، بیٹھا ہے رشتوں کے پھولوں پہ، لوبھ کا بھنورا ہے← مزید پڑھیے
سال نیا آیا ہے دیکھو دیکھو اپنی کھڑکی کھولو روشنی کی بارات سجے گی جھومر ڈالو کہ ّپتوں پر شبنم کچھ ایسے چمکے گی جیسے بس اک سال کے بچے کے ہونٹوں پر رال کی چمکی چمکے گھر کی کچی← مزید پڑھیے
بس مالک! اب تجھ سے بھی ہم کیا مانگیں؟ رت جیون کی، تنہا روتے بیت گئی سندر خواب، سہانے کل کے راکھ ہوئے قندیلیں بھی ،آس کی اپنی، خاک ہوئیں تار،تار ہے دامن بھی امیدوں کا اور چہرے پر سایہ← مزید پڑھیے
سنو سائیں ترے لہجے کا مصنوعی یہ بھاری پن وفا کی راگنی جاناں لگاوٹ کے سبھی پلٹے یہ آروئی و امروہی مگر، ان تیز سانسوں لچکتی ڈال سے کومل بدن پہ ہونٹ کی سرگم یہ رعنائی وفا کے سارے وعدوں← مزید پڑھیے