فیصل عظیم - ٹیگ

خزاں کی آگ/فیصل عظیم

رنگ اُترا ۔۔۔ لباس ننگ اُترا راہگیروں نے کیا نظر ڈالی شرم سے سرخ ہوگئے عارض جھرّیاں پڑ گئیں خجالت سے شاخساروں کی نیم عریانی دیکھی بھالی ہوا میں ٹھٹھری ہے وہ جو غازے کے محملوں میں تھی ہکّا بکّا،←  مزید پڑھیے

سارک کہانی۔۔۔فیصل عظیم

سارک تو گویا خواب ہوا اور ایسا ہونا کوئی حیرت کی بات بھی نہیں مگر سارک کے نام پر تہذیبی اور ثقافتی سطح پر کئی چھوٹے بڑے کام ہوئے جن کا اثر دیرپا ہے اور ایسے کاموں کا اثر اور←  مزید پڑھیے

ہندسوں کے غار۔۔فیصل عظیم

تاریکی میں ہلتے سائے برفیلے رنگوں پر چاند کی ہلکی، نیلی چادر اوڑھے جھینگر کی آواز کی سنگت، سانپوں کی پھنکاریں، سانسوں کی غرّاہٹ غار، افق، احساس، جبلّت کے سب محضر اور ہر محضر کا سرنامہ، بھٹ کے اندر، حدِّ←  مزید پڑھیے

منادی ہے۔۔۔۔۔فیصل عظیم/نظم

منادی ہے کہ اب حکمِ بہاراں ہے منادی ہے کہ اب پتّوں کی رنگت بس ہری کہلائے زباں پر زرد کا قصّہ نہیں ٹھہرے جو ہو اب شاخ پر، سب گل کہیں اُس کو زبانوں پر کوئی کانٹا نہیں ہوگا←  مزید پڑھیے

حاصلِ محفل۔۔۔فیصل عظیم

تمہیدوں کی بھول بُھلیّاں باتیں گنجلک روحِ معنی کی ارزانی تعریفوں کے مردہ پیکر توصیفی نظروں سے پوجا پاٹ کے منظر گویا سب کچھ لمحے بھر کو سر آنکھوں پر ایک عجب ہنگامہ شب بھر واہ وا ہ کی مشکوک←  مزید پڑھیے

دیوانے کی بڑ۔۔۔فیصل عظیم

 بھرے بازار کے پامال چہرے کی اندھیری جھرّیوں پر دھوپ کی یلغار کہیں مشتاق نظروں سے مرصّع طاق میں اسباب خود اپنے بوجھ سے لٹکی کہیں تمثال خوابوں کی کہیں جنسِ تجارت طوق گردن کا دھواں سانسوں کا سدِّ راہ←  مزید پڑھیے

سنگ بار ۔۔فیصل عظیم

 ہر طرف نقشِ قدم محوِ سفر تھک گئی حدِّ نظر، انتہا  سے  انتہا  تک سر ہی سر کلمۂ مانوس کی تکرار، آوازِ جرس وہ قیامت ہے، کہ بس! ایک سنگِ میل کی جانب رواں ایک بحرِ بیکراں۔۔ بیکس و بے←  مزید پڑھیے