سفید کاسہ لہو سے لبریز ہو چکا ہے لہو کے دریا میں تیرتی ہے سفید ٹوپی کسی نمازی کے سَر سے گِر کے! یہ اُس عبادت گزار بندے کی التجا ہے جوحق کا نعرہ بلند کرکے گرا زمیں پر خدا← مزید پڑھیے
دھوپ سے جھلسی ہوئی ویراں گلی میں وقت اپنی سانس رو کے چپ کھڑا ہے انتظار آنکھوں میں کنکر بھر گیا ہے بس ابھی نٹ کھٹ ادھر سے کھلکھلاتا آئے گا اور اس کی پشت پر چابک لگائے گا کہانی← مزید پڑھیے
سمندر نے کروٹ بدل کر کہا: کن گمانوں کی لہروں پہ چلتے،مچلتے ہوئے جارہے تھے یہاں میرے قدموں میں گرنے سے پہلے! نمک چکھ لیا تم نے میرے بدن کا تو کہنے لگے ہو: ’’نہیں ، میں نے ایسا تو← مزید پڑھیے