حبیب شیخ، - ٹیگ

میرے کھلونے ۔۔حبیب شیخ

آج میں گھنٹوں اپنے کھلونوں کے ساتھ باہر کھیلتی رہی۔ آج بھی سکول بند تھا، میرا چھوٹا سا سکول، میرا پیارا سکول۔ یہ تو اب تقریباً بند ہی رہتا ہے، بس کبھی کبھی کھلتا ہے کچھ دنوں کے لئے اور←  مزید پڑھیے

دھول و پھول۔۔ حبیب شیخ

ذرا خیال سے اُڑنا، ادھر نہیں آنا۔ کیوں؟ تم اب میرے اِدھر اُدھر اڑنے پہ پابندی لگاؤ گے! پابندی نہیں بھئی۔ بس یہ ایک درخواست ہے کہ اس طرف نہیں آنا۔ تمہیں پتا ہے کہ میں کتنا حسین و جمیل←  مزید پڑھیے

ضرورت نہیں ہے۔۔ حبیب شیخ

مجھے ضرورت نہیں ہے، مجھے ضرورت نہیں ہے اِس نئے نظام کی، اُس پرانے نظام کی نہ انتخابات کی نہ سیاسی جماعت کی نہ کسی شعبدہ بازکی نہ نئےامتحانات کی نہ ان کے منشوروں کی ،نہ ان کے نعروں کی←  مزید پڑھیے

بھنور ۔۔حبیب شیخ

زندگی میں کتنا ٹھہراؤ تھا! آہستہ آہستہ رواں دواں زندگی کوئی مسئلہ نہیں، کوئی پریشانی نہیں لیکن ذ ہن کہیں کھویا ہوا اور جسم ہمیشہ تھکا ہوا یہ بے چین سوچیں اور ٹوٹتے ہوئے انگ نہ پھولوں کی مہک، نہ←  مزید پڑھیے

بہتر کون؟۔۔حبیب شیخ

یہ اتنا شور کیوں ہو رہا ہے؟ ایک اونچی دیوار بن رہی ہے، میں ا بھی ادھر ہی سے دیکھ کر آ رہی ہوں۔ دیوار، وہ کیوں؟ وہ تو راستہ روکنے کے لئے بنائی جاتی ہے نقل و حرکت کو←  مزید پڑھیے

آپ تھک جائیں گے۔۔حبیب شیخ

اس بھرے گھر میں میاں بیوی، پانچ بچّے، ان سب کا ہر وقت آنا جانا اور پھر ان کے دوستوں کی فوج، بس گھر میں ہر وقت رونق ہی رونق تھی مگر دادا ابّا تنہائی کے احساس میں ڈوبتے چلے←  مزید پڑھیے

جنّت سے رہائی ۔۔حبیب شیخ

نور نے اپنی ماں کو ایک خط لکھا پھر اسے پھاڑ دیا۔ اگلی رات اپنی ماں کو دوسرا خط لکھا پھر اسے بھی پھاڑ دیا۔ نور نے تیسری رات اپنی ماں کو پھر ایک خط لکھا اور اسے بھی  پرزے←  مزید پڑھیے

تمہیں خدا پر بھروسہ نہیں۔۔حبیب شیخ

نیلے شلوار قمیض میں ملبوس درمیانے قد اور موٹے خد و خال کا حامل امجد کافی عرصے سے موقع کی تلاش میں عتیق صدیقی کی طرف دیکھ رہا تھا لیکن وہ اخبار پڑھنے میں گم  تھا۔ ’کیا بات ہے امجد؟ ←  مزید پڑھیے

قدرت کا رقص۔۔حبیب شیخ

جب کرونا وائرس کی وبا کے دوران میں ایک پارک میں گیا مجھے کوئی انسان نظر نہیں آیا، سنسان پارک کو دیکھ کر میں گھبرا گیا، چاروں طرف خاموشی ہی خاموشی تھی، پھر ایک چڑیا میرے سامنے آ کر بیٹھ←  مزید پڑھیے

وبا اور سزا۔۔حبیب شیخ

ایک عالم ِدین کو وبا پھیلنے کی وجہ پتا لگ گئی ۔ اے عالمِ دین تیرےپاس یہ پیغام کہاں سے آیا ہے کہ یہ وائرس میرا جسم میری مرضی کے نعرے کی سزا ہے کہ یہ وائرس عورتوں کی فحاشی←  مزید پڑھیے

ایک میٹر کے سمندر۔۔ حبیب شیخ

چاروں اطراف ہُو کا عالم تھا۔ صبح کاذب کے اندھیرے اور کہر میں سب چھپا ہوا تھا۔ شلوار قمیض میں ملبوس عدنان کمبل میں ٹھٹھرتا ہوا ،کچھ ٹھوکریں کھا کر ایک جگہ پہنچ کر رک گیا۔ “مجھے معاف کر دو۔←  مزید پڑھیے

خاموش صحن۔۔۔حبیب شیخ

یہ کیسی کشیدگی، یہ کیسا کھچا کھچا سا ماحول، ان دیواروں کے پیچھے کچھ چھپا ہوا خوف؟ کیا اس عمارت کا وہی حال ہو گا جو رام باغ کا ہوا تھا؟ کیا میرے بچے یہاں محفوظ ہیں؟ سیتا کچھ دنوں←  مزید پڑھیے