میں جب بھی لاہور جاتا، ڈاکٹر وزیر آغا کے دولت کدے پر ہی ٹھہرتا۔ اوپر والی منزل پر ایک طویل و عریض کمرہ اور غسل خانہ میری عارضی املاک تھے۔ شام تک تو احباب (جن میں ڈاکٹر انور سدید اور← مزید پڑھیے
ایک ناد ر الوجود ڈکشنری لیکن اس سے پہلے کہ میں امریکہ اور کینیڈا میں نقل مکانی کے بعد کا ”آلاپ“ شروع کروں، مجھے انگلستان میں اپنے ڈیڑھ دو برسوں کے قیام کے دورانیے کو ایک نظر دیکھنا ہے کہ← مزید پڑھیے
واقعہ ایک ہندوستانی ناولسٹ سے ملنے کا! لندن میں یا اس کے قریب ہی اپنی یونیورسٹی (برٹش اوپن یونیورسٹی، ملٹن کینز) میں رہتے ہوئے تب تک ایک برس بیت چکا تھا۔ چچا ملک (ڈاکٹر ملک راج آنند) سے اس دوران← مزید پڑھیے
غزل اور نظم کا بکھیڑا سوال در سوال اور جواب در جواب نوٹ: اپنی چھیاسی برس کی عمر کا ”کتھا چار جنموں کی“ میں لیکھا جوکھا پیش کرتے ہوئے بار بار یہ خیال آتا ہے کہ میں نے اپنی عمر← مزید پڑھیے
وِلے نیل۔ ایک فرانسیسی صنف۔Oral Literature = Orature اوریچر انگلستان کے 1971-73 کے قیام کے دوران ایک اور شخصیت سے ملاقات ہوئی جو خود چاہتے تھے کہ مجھ سے ملیں۔ یہ والٹر جے اونگؔ Walter J. Ong تھے جو ایک← مزید پڑھیے
ظفر اقبال صاحب شاید ابھی تک انیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں۔ مجھے علم ہے کہ وہ انگریزی اور اس کے وسیلے سے یورپ کی دیگر زبانوں کے ادب سے نا آشنا ہیں۔ مجھے یہ باور کرنے میں بھی← مزید پڑھیے
قصہ ڈاکٹر وزیر آغا کو نوبیل پرائز نہ ملنے کا! سکینڈے نیویا کے چھ ملک اور ان کے کلچر کا مرکز سویڈن! جو شخص سویڈن نہیں گیا اور یورپ کا چکر لگا کر واپس آ گیا، تو سمجھیے اس← مزید پڑھیے
ریاض پہنچنے پر کیمپس کے اندر ہی گیسٹ ہاؤس میں عارضی طور پر رہنے کی جگہ مل گئی۔ نصیر احمد ناصر صاحب کو فون کیا تو وہ ملنے آ گئے۔ جسبیسرسرنا صاحب کو فون کیا تو وہ میاں بیوی دونوں← مزید پڑھیے
وزیر آغا (مرحوم) سے خط و کتابت! دو تین ہفتوں کے تعطل کے بعد میں نے فون کیا، انہیں میرا خط مل گیاتھا اور وہ میرے فون کے انتظار میں تھے، لیکن کسی خانگی وجہ سے پریشان سے تھے، زیادہ← مزید پڑھیے
گذشتہ برس آج کے دن میرے لڑکپن کے شہر پشاور کے افسوسناک سانحہ کےبعد تحریر کردہ دو نظمیں۔ میرے ابّو سلامت رہیں!! “اے خدا، میرے ابو سلامت رہیں” یہ دعا گو فرشتہ بھی کل صبح مارا گیا ظالموں نے← مزید پڑھیے
( ﯾﮧ ﻧﻌﺖ ﺑﺼﻮﺭﺕ ﺍﺳﺘﻐﺎﺛﮧ ﮨﮯ ) ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ اے خاصہ ء خاصانِ رسلؑ،ہادیء برحق حالیؔ نے روا رکھا تھا جو طرزِ تخاطب مجھ جیسے سبک سر کو تو اچھا نہیں لگتا اے سیدِ الابرار۔۔۔ “امت پر تری آ← مزید پڑھیے
میں استاذی منشی تلوک چند محروم سے ملنے کے لیے دوسرے دن وقت سے پہلے ہی پہنچ گیا۔ ابھی کوئی کلاس پڑھا رہے تھے۔ چپڑاسی کواب میری آمد شاید قبول تھی کہ وہ مجھے ان کا بھتیجا یا بھانجا سمجھ← مزید پڑھیے
1946عیسوی۔ (جنوری تا مارچ) اس دوران میں استاذی تلوک چند محروم صاحب کی خدمت میں حاضرہونا میرا معمول سا بن گیا۔ راولپنڈی کا موسم سرما جنوری میں شدید تر ہو تا ہے اس لیے میں دو دو اُونی سویٹر منڈھ← مزید پڑھیے
سن چھیالیس کے آخری مہینے میں جگن ناتھ آزاد ایک دن راجہ بازار میں تیز تیز قدموں سے جاتے ہوئے نظر آ گئے۔ میں پیچھے ہو لیا، کہ کہیں ٹھہریں گے تو بات کروں گا۔ جاتے جاتے بازار تلواڑاں کی← مزید پڑھیے