الصبر تا الظفر وقل من جد فی امر بطالبہ فلستصحب الصبر الا فاز با الظفر (حضرت علیؑ) علیؑ مشکل کشا سے پوچھنا ،مشکل تو تھا، لیکن مرا علم الیقیں رکھتے ہوئے یہ پوچھنا بے حد ضروری تھا کہا، مشل کشا،← مزید پڑھیے
اور پھر ایسے ہُوا’ اک نرتکی نے (نرتکی۔ رقـاصہ) خوب رُو آنند کو بانہوں میں بھر کر یہ کہا: ’’تم سَنگھ سے باہر چلے آؤ، یہ میری دولت و ثروت’ یہ جاہ و حشم، یہ اونچا محل اور سب سے← مزید پڑھیے
اختر الایمان تب باندرہ میں کین روڈ پر بینڈ اسٹینڈ بلڈنگ میں رہتے تھے۔ ہم اس بلڈنگ کے نمبر ۵۵ کے اپارٹمنٹ میں پہنچے، تو چڈھا صاحب کو دیکھ کر خوش ہوئے۔ مجھ سے ہاتھ ملایا، اور جب میں نے← مزید پڑھیے
دہلی کے یہ پھبتی باز، بیکار، آوارہ اردو شاعر اور افسانہ نگار جو سارا دن کناٹ پلیس میں ایک یا دو میزوں کو قابو کیے بیٹھے رہتے تھے، میرے قیام کے دوران خبروں اور افواہوں کا بہترین ذریعہ تھے۔← مزید پڑھیے
ایک خاص موضوع جس پر میں نے عرق ریزی کی حد تک کام کیا ، وہ اردو میں صنف غزل کے منفی اثرات کی وجہ سے آزاد نظم (یعنی بلینک ورس۔۔فری ورس نہیں ، جسے آج کل نثری نظم کہا جاتا ہے ) میں رن ، آن سطروں سے لا تعلقی کا رویّہ تھا← مزید پڑھیے
آئینہ در آئینہ سے یہ اقتباس، صرف ان دوستوں کے لیے ہے، جو فن ِ شعر کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے خواہاں ہیں ۔ سوال :(علامہ ضیائی) شاعری زندگی اور موت کی بند عمارت میں دروازے کی درزوں میں← مزید پڑھیے
یہ ایلچی گری مجھ سے نہیں ہوتی، مولا یہ ایلچی گری لفظوں کی جلتی مشعل سی میں کتنے برسوں سے اس کو اٹھائے پھرتا ہوں شروع ِ عمر سے اب تک بلند و بالا رکھے میں تھک گیا ہوں اس← مزید پڑھیے
محفلیں بر ہم کر ے ہے گنجفہ بازِ خیال ہیں ورق گردانیء نیر نگ ِ یک بت خانہ ہم — استاد ستیہ پال آنند میں بتاؤں، نوجوانو، خوشنما، عمدہ طریقہ بحث کا؟ خود سے پوچھو، پوچھتے جاؤ، سوال اندر سوال← مزید پڑھیے
دل حسرت زدہ تھا مائدہ لذتِ درد کام یاروں کا بقدر لب و دنداں نکلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طالبعلم ایک دیکھیں حسرت زدہ ” آزردہ “کے معنی میں اگر اور پھر “مائدہ” ۔۔۔۔”آمادہ” یا” راضی” سمجھیں “لذت ِ در د” کو لیں← مزید پڑھیے
یہ ایلچی گری لفظوں کی (ایک) یہ ایلچی گری مجھ سے نہیں ہوتی، مولا یہ ایلچی گری لفظوں کی جلتی مشعل سی میں کتنے برسوں سے اس کو اٹھائے پھرتا ہوں شروع ِ عمر سے اب تک بلند و بالا← مزید پڑھیے
وہ نیک لڑکی تھی ۔۔ صلح کُل، پاکباز، بے داغ، بھولی بھالی وہ اپنی معصوم نیک چلنی میں لپٹی،لپٹائی، باکرہ تھی غریب گھر کی کنواری کنیا نجانے کیسے ذرا سے اونچے، امیر گھرمیں بیاہی آئی تو اپنےشوہر کے لڑ لگی← مزید پڑھیے
ROGUE POEMS یعنی ـ’’شریر نظموں‘‘کی ایک شعری وبا سی انگلینڈ میں 1972-74کے برسوں میں پھیلی ،جب میں وہاں مقیم تھا۔ ؎ انگریزی میں یہ نظمیں اس قدر مقبول ہوئیں کہ ’’دی گارڈین‘‘ سمیت کئی روزنامو ں نے باقاعدگی سے اپنے← مزید پڑھیے
زندہ درگور اور قبرستان میں بیٹھے ہوئے میت کے ساتھی لوگ جن میں پوپلے منہ کے بڑے بوڑھے ضعیف العمر بیوہ عورتیں بُدبُداتے، سر ہلاتے اور رہ رہ کر سناتے اُن کے قصے جو کبھی زندہ تھے۔۔اور اب اپنی قبروں← مزید پڑھیے
ان گنت خوبیوں کے مالک، لا تعداد گُنوں کی گُتھلی، بے مثال انسان اور بندہ پرور دوست، ڈاکٹر سید امجد حسین شاعر نہیں ہیں، افسانہ نگار نہیں ہیں، انشائیے نہیں لکھتے، لیکن جو کچھ بھی وہ لکھتے ہیں ان میں← مزید پڑھیے
سلطنت دست بدست آئی ہے جام ِ مئے خاتم ِ جمشید نہیں ———- نوٹ۔مر زا غالب کے شعرکی تقطیع “فاعلاتن فعلاتن فعلن”سے ممکن ہے۔ میں نے اپنی جد ت طراز طبعیت کی تسکین کے لیے اس مکالمے میں بحرخفیف مسدس← مزید پڑھیے
لکھا کرے کوئی احکام ِ طالع ِ مولود کسے خبر ہے کہ واں جُنبش ِ قلم کیا ہے (غالب) —————— ستیہ پال آنند “لکھا کرے کوئی احکام ِ طالع ِ مولود” حضور، “کوئی” سے آخر مر اد کیا ہے یہاں؟← مزید پڑھیے
غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ِ ناسخؔ اپ بے بہرہ ہے جو معتقد ِ میر نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ریختہ کے تمہی استاد نہیں ہو، غالب کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند مدح میں← مزید پڑھیے
(ایک) انیس سو ساٹھ ستر کے عرصے میں فرانس میں “پتیت پوئمز” کی ایک تحریک شروع ہوئی، جس میں زیادہ سے زیادہ دس سطروں پر مشتمل ایسی نظمیں پیش کی گئیں، جو نرم رو تھیں، صرف ایک استعارے کی مدد← مزید پڑھیے
آج آٹھ برسوں کے بعد مرحوم لطف الرحمن کا تحریر کر دہ ایک مضمون جو شاید انڈیا کے کسی رسالے اور الحمرا (لاہور) میں شامل اشاعت ہوا تھا، نظر سے گزرا۔ یہ مضمون اس قدر بلیغ تھا کہ میرے دل← مزید پڑھیے
بول کر سب کو سنا، اے ستیہ پال آنند! بول اپنی رامائن کتھا، اے ستیہ پال آنند ! بول تو کہ کامل تھا کبھی، اب نصف سے کم رہ گیا دیکھ اپنا آئنہ ، اے ستیہ پال آنند ! بول← مزید پڑھیے