یہ ایلچی گری مجھ سے نہیں ہوتی، مولا یہ ایلچی گری لفظوں کی جلتی مشعل سی میں کتنے برسوں سے اس کو اٹھائے پھرتا ہوں شروع ِ عمر سے اب تک بلند و بالا رکھے میں تھک گیا ہوں اس← مزید پڑھیے
محفلیں بر ہم کر ے ہے گنجفہ بازِ خیال ہیں ورق گردانیء نیر نگ ِ یک بت خانہ ہم — استاد ستیہ پال آنند میں بتاؤں، نوجوانو، خوشنما، عمدہ طریقہ بحث کا؟ خود سے پوچھو، پوچھتے جاؤ، سوال اندر سوال← مزید پڑھیے
دل حسرت زدہ تھا مائدہ لذتِ درد کام یاروں کا بقدر لب و دنداں نکلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طالبعلم ایک دیکھیں حسرت زدہ ” آزردہ “کے معنی میں اگر اور پھر “مائدہ” ۔۔۔۔”آمادہ” یا” راضی” سمجھیں “لذت ِ در د” کو لیں← مزید پڑھیے
یہ ایلچی گری لفظوں کی (ایک) یہ ایلچی گری مجھ سے نہیں ہوتی، مولا یہ ایلچی گری لفظوں کی جلتی مشعل سی میں کتنے برسوں سے اس کو اٹھائے پھرتا ہوں شروع ِ عمر سے اب تک بلند و بالا← مزید پڑھیے
وہ نیک لڑکی تھی ۔۔ صلح کُل، پاکباز، بے داغ، بھولی بھالی وہ اپنی معصوم نیک چلنی میں لپٹی،لپٹائی، باکرہ تھی غریب گھر کی کنواری کنیا نجانے کیسے ذرا سے اونچے، امیر گھرمیں بیاہی آئی تو اپنےشوہر کے لڑ لگی← مزید پڑھیے
ROGUE POEMS یعنی ـ’’شریر نظموں‘‘کی ایک شعری وبا سی انگلینڈ میں 1972-74کے برسوں میں پھیلی ،جب میں وہاں مقیم تھا۔ ؎ انگریزی میں یہ نظمیں اس قدر مقبول ہوئیں کہ ’’دی گارڈین‘‘ سمیت کئی روزنامو ں نے باقاعدگی سے اپنے← مزید پڑھیے
زندہ درگور اور قبرستان میں بیٹھے ہوئے میت کے ساتھی لوگ جن میں پوپلے منہ کے بڑے بوڑھے ضعیف العمر بیوہ عورتیں بُدبُداتے، سر ہلاتے اور رہ رہ کر سناتے اُن کے قصے جو کبھی زندہ تھے۔۔اور اب اپنی قبروں← مزید پڑھیے
ان گنت خوبیوں کے مالک، لا تعداد گُنوں کی گُتھلی، بے مثال انسان اور بندہ پرور دوست، ڈاکٹر سید امجد حسین شاعر نہیں ہیں، افسانہ نگار نہیں ہیں، انشائیے نہیں لکھتے، لیکن جو کچھ بھی وہ لکھتے ہیں ان میں← مزید پڑھیے
سلطنت دست بدست آئی ہے جام ِ مئے خاتم ِ جمشید نہیں ———- نوٹ۔مر زا غالب کے شعرکی تقطیع “فاعلاتن فعلاتن فعلن”سے ممکن ہے۔ میں نے اپنی جد ت طراز طبعیت کی تسکین کے لیے اس مکالمے میں بحرخفیف مسدس← مزید پڑھیے
لکھا کرے کوئی احکام ِ طالع ِ مولود کسے خبر ہے کہ واں جُنبش ِ قلم کیا ہے (غالب) —————— ستیہ پال آنند “لکھا کرے کوئی احکام ِ طالع ِ مولود” حضور، “کوئی” سے آخر مر اد کیا ہے یہاں؟← مزید پڑھیے
غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ِ ناسخؔ اپ بے بہرہ ہے جو معتقد ِ میر نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ریختہ کے تمہی استاد نہیں ہو، غالب کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند مدح میں← مزید پڑھیے
(ایک) انیس سو ساٹھ ستر کے عرصے میں فرانس میں “پتیت پوئمز” کی ایک تحریک شروع ہوئی، جس میں زیادہ سے زیادہ دس سطروں پر مشتمل ایسی نظمیں پیش کی گئیں، جو نرم رو تھیں، صرف ایک استعارے کی مدد← مزید پڑھیے
آج آٹھ برسوں کے بعد مرحوم لطف الرحمن کا تحریر کر دہ ایک مضمون جو شاید انڈیا کے کسی رسالے اور الحمرا (لاہور) میں شامل اشاعت ہوا تھا، نظر سے گزرا۔ یہ مضمون اس قدر بلیغ تھا کہ میرے دل← مزید پڑھیے
بول کر سب کو سنا، اے ستیہ پال آنند! بول اپنی رامائن کتھا، اے ستیہ پال آنند ! بول تو کہ کامل تھا کبھی، اب نصف سے کم رہ گیا دیکھ اپنا آئنہ ، اے ستیہ پال آنند ! بول← مزید پڑھیے
پیکر ِ عشّاق ساز ِ طالع ِ ناساز ہے نالہ گویا گردش ِ سیارہ کی آواز ہے ——————- ستیہ پال آنند مت ہنسیں، اے بندہ پرور ، میرے استفسار پر جسم عاشق کا بھلا کیا اک سریلا ساز ہے جو← مزید پڑھیے
مرزا غالب کے دس فارسی اشعار پر دس نظموں میں سے ایک، جوعلم منطق کی تکنیک “ریدکتیو اید ابسرڈم” کے استعمال سے لکھی گئیں اور میری کتاب “میری منتخب نظمیں” میں شامل ہیں۔یہ کتاب کچھ برس پہلے شائع ہوئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔← مزید پڑھیے
عجب منظر دکھاتے ہیں یہ صفحے جن پہ برسوں سے دھنک کے سارے رنگوں میں مرے موئے قلم نے گُل فشانی سے کئی چہرے بنائے ہیں کئی گُلکاریاں کی ہیں لڑکپن کے شروع ِ نوجوانی کے بیاض ِ عمر کے← مزید پڑھیے
لگ بھگ نصف صدی پہلے جب میں نے اردو میں “رن۔آن۔لائنز” کا چلن شروع کیا تو اس کی بھرپور مخالفت ہوئی۔ یہ کیسے ممکن ہے، کہا گیا،کہ کسی مصرع کو کھینچ تان کر اگلی سطر میں ضم کر دیا جائے۔← مزید پڑھیے
(خواب میں خلق ہوئی ایک نظم) اپنے اندر اس طرح داخل ہوا وہ جیسے رستہ جانتا ہو جیسے اس بھورے خلا کی ساری پرتوں کو کئی صدیوں سے وہ پہچانتا ہو اپنے اندر دور تک جانے کی کیا جلدی ہے← مزید پڑھیے
ایک لڑکا سر کے بل ایسے کھڑا ہے نرم گیلی ریت پر جیسے اسے آکاش کی اونچائی میں پانی سمندر کی اتھاہ گہرائی میں آکاش ساحل پر کھڑےلوگوں کے جمگھٹ سب کو اُلٹا دیکھنا ہے۔ آتے جاتے لوگ اس کے← مزید پڑھیے