بہت تکلیف دہ مناظر ہیں۔ ہر چند گھنٹوں بعد پاکستان کے کسی نہ کسی بڑے شہر کے پریس کلب میں کوئی نہ کوئی سیاسی چہرہ نمودار ہوتا ہے اور تحریک انصاف سے لاتعلقی کا اظہار کر دیتا ہے۔ یہ سب← مزید پڑھیے
تجزیے کرتے کرتے دل اُوب گیا ہے، سیاسی مباحث کر کے اعصاب شل ہو چکے ہیں۔ امید کی ڈوری سے بندھے ہاتھوں پہ زخموں کےنشان ثبت ہو چکے ہیں۔ شعور اور اصول ناپید ہو چکے ہیں۔ تاویل نے منطق کا گلا← مزید پڑھیے
(مترجم /محمد منیب خان)گارڈین میں چھپنے والے ایک مضمون کے مطابق دو ماہرین طب کی رائے میں ان صحت کے مسائل میں اجابت کو قابو میں نہ رکھ پانا، مسلسل خون بہنا اور جنسی بیماریوں کا پھیلنا شامل ہیں اور← مزید پڑھیے
عمران خان کا حکومت سے رخصت ایک واقعہ ہے اور سیاسیات کے طلبا کے لیے اس میں سمجھنے کو بہت کچھ ہے لیکن ہم نے تاریخ سے سیکھا ہی کب ہے؟ اگر ہم نے پاکستان کی سیاسی تاریخ سے کچھ سیکھا ہوتا تو 27 مارچ 2022 کو وقت کا وزیراعظم سفید کاغذ لہرا کر یہ باور کروانے کی کوشش نہ کرتا کہ میرے سوا باقی سب غدار ہیں ۔← مزید پڑھیے
ٹیگور کا کابلی والا اور ہماری حکومتیں۔۔محمد منیب خان/سیاست پالیسی بنانے کا نام ہے اور جمہوری طرزِ حکمرانی میں پارلیمان وہ جگہ جہاں سیاست سے بنائی گئی پالیسیاں منظور یامسترد ہوتی ہیں۔ پارلیمان میں وہ سارے سیاستدان جمع ہوتے ہیں جنہیں عوام اپنے ووٹ سے منتخب کرتے ہیں← مزید پڑھیے
ایک سال ادھر کی بات ہو گی یا کچھ مہینے کم زیادہ۔ ٹی وی سکرینوں پہ کانپتے ہاتھوں میں دو تصویریں تھامے لرزتے ہونٹوں سےحسیبہ قمبرانی اپنے بھائیوں کی رہائی کی بھیک مانگ رہی تھی۔ میں نے جوں ہی یہ← مزید پڑھیے
پاکستانی سیاست انٹرٹینمنٹ کے سارے اصولوں پہ پورا اترتی ہے۔ اس میں ن لیگ کی فنکاریاں ہیں، پیپلزپارٹی کی قلابازیاں ہیں، جمیعت علمائے اسلام کی سخت مزاجیاں ہیں، اور تحریک انصاف کی کارکردگی کی “نشانیاں” ہیں۔ آئے روز سیاسی درجہ← مزید پڑھیے
جنوری کا مہینہ ہر لحاظ سے واصف صاحب رح کی یاد دلا دیتا ہے۔ البتہ واصف صاحب پہ کوئی تحریر لکھنے کے لیے توانائی جمع کرنے میں شاید برسوں مزید بیت جاتے۔ جنوری ہی وہ مہینہ ہے جس میں واصف← مزید پڑھیے
قوموں کے عروج کے پیچھے بہت سے محرکات ہوتے ہیں، بہت سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ قومیں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں ،کوتاہیوں کو دہرانے سے گریز کرتی ہیں۔ اچھے بُرے تجربات کی روشنی میں قوموں کا اجتماعی← مزید پڑھیے
چند سال یا چند دھائیاں قبل شہروں اور دیہاتوں میں تماشا دکھانے والے بکثرت مل جاتے تھے۔ کوئی ریچھ کا تماشا دکھاتا تھا کوئی بندر کا تماشا، کوئی سانپ اور نیولے کی لڑائی دکھاتا تھا اور کہیں میلوں ٹھیلوں میں← مزید پڑھیے
قدرت نے انسان کو جو بیش بہا نعمتیں عطا کی ہیں ان میں سے ایک بہت ہی قیمتی نعمت “بھولنا” بھی ہے۔ انسان وقت کے ساتھ ساتھ زندگی کے جھمیلوں میں غموں کو بھول جاتا ہے اور غم کی شدت← مزید پڑھیے
اپنے دین سے لگاؤ ہونا خدا کو ماننے والے ہر انسان کا فطری عمل ہے۔ جبکہ دین پہنچانے والے سے جذباتی لگاؤ اور جذباتی تعلق کاہونا بھی عین قابل فہم اور قدرتی بات ہے۔ دین بنیاد طور پہ خلق کا← مزید پڑھیے
زندگی کو لمبی تمہید چاہیے۔ نو ماہ کوکھ میں پلتی ہے۔ پھر بچپن میں دمکتی ہے، جوانی میں مہکتی ہے، ادھیڑ عمر میں دہکتی ہے اوربڑھاپے میں سلگتی ہے۔ لیکن موت کے لیے بس ایک تمہید کافی ہے اور وہ← مزید پڑھیے
کسی بھی منزل کی طرف جانے کے لیے اپنی منفرد مسافت ہوتی ہے۔ لازمی نہیں کہ منزل، مسافت اور ہمسفر سب کو مقدر کی کھونٹی سے باندھ کر خود کو عمل کے نتائج سے مبرا کر لیا جائے۔ کیونکہ اگر← مزید پڑھیے
پچھلے وقتوں میں ہتھیار تیار رکھے جاتے تھے، طبل بجتا تو سورما میدان جنگ میں جمع ہو جاتے، گھمسان کا رن پڑتا۔ فاتح لاشیں سمیٹتے، جیت کا نغمہ گاتے واپس لوٹتے۔ شکست خوردہ لاشیں میدان جنگ میں چھوڑ کر بھاگ← مزید پڑھیے
چور، عاشق اور عابد سے زیادہ رات کا قدر دان کون ہوگا؟ یہی وہ لوگ ہیں جو رات میں چھپے خزانے دریافت کرتے ہیں۔ جیسے کوئی کان کن کوئلے میں چھپا ہیرا۔ چور کی منزل کھوٹی، عاشق کا راستہ آسان← مزید پڑھیے
الفاظ کی اہمیت سے کس کو انکار ہو سکتا ہے۔ انسانوں نے صدیوں کے ارتقا سے ابلاغ کا جو موثر ترین ذریعہ اپنایا اور الفاظ کا ہی تھا۔ خیال ذہن میں جنم لیتا ہے اور الفاظ خیال کو مجسم کر← مزید پڑھیے
مولانا فضل الرحمن نے کل جلسے سے خطاب کے دوران وزیر اعظم عمران خان کو استعفی دینے کے لیے دو دن کی مہلت دے دی ہے۔ میں کوئی کاہن، نجومی یا ستارہ شناس نہیں کہ بتا سکوں اگر وزیراعظم مستعفی← مزید پڑھیے
سچ کو غیر معتبر کرنے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ کسی جھوٹے کی زبان سے کہلوا دیا جائے۔ واصف باصفا رح کا قول ہے “سچ وہ ہےجو سچے کی زبان سے نکلے”۔ کوئی سچ کسی ناقابل اعتبار زبان← مزید پڑھیے
یوں تو فکر کا پیٹ بھرنے کو سوچ کے سارے در واء ہیں اور نظاروں کا ایک اژدھام ہے۔ آنکھوں کی پتلیاں ان نظاروں کو دیکھتے ہوئےحیرت سے پھیلتی جا رہی ہیں۔ خیال کے آنگن میں عوام کے مستقبل سے← مزید پڑھیے