فلسفہ کے موضوع پر ہم نے فلسفہ کی تعریف اور مقاصد کو سمجھا تھا اور مزید ذرائع علم بارے بھی۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا فلسفہ کی موت پورے علم کی موت ہے؟ اس سوال کے جواب← مزید پڑھیے
ایک سوال بہت زور وشور سے پوچھا جا رہا ہے کہ کیا آپ آزادی اظہار کی حمایت کرتےہیں اور اگر کرتے ہیں تو کیا آپ اُن لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو اِس آزادی کا حق استعمال کرنے کی پاداش← مزید پڑھیے
گزشتہ کچھ عرصے سے لاڑکانہ سے ایک نوجوان طالبعلم سہیل چانڈیو کے چند سوالات موصول ہو رہے تھے، مصروفیت کے سبب اس کے ساتھ مختصر سی ہوں ہاں ہوتی رہی لیکن سچی بات یہ ہے کہ متوجہ نہ ہو سکا۔← مزید پڑھیے
یہ نظم اور اس پر ڈاکٹر اے عبداللہ کا تحریر کردہ عملی تنقید کا مضمون اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس کی زنجیر میں باقی ماندہ انتیس نظمیں پروئی ہوئی ہیں۔ مرحوم دوست بلراج کومل کی مرتب کردہ یہ← مزید پڑھیے
زین عباس ٹانڈہ ضلع گجرات کا رہائشی تھا’وہ نظم کا ایک شاندار شاعر ’ انتہائی ذہین مارکسسٹ اور گریجوایشن کا طالب علم تھا۔ہفتے کی صبح چار بجے اپنے ہاسٹل کے کمرے کی دیوار پر یہ ادھوری سطر لکھی‘‘یہ راقم کی آخری رات ہے’’اور پنکھے سے لٹک کر جان دے دی← مزید پڑھیے
اس وقت ملکی سیاسی صورتحال پنجابی فلم کیری آن جٹا، کے اختتامی ڈائیلاگ جیسی ہو رہی ہے کہ سمجھ کسی کو کچھ نہیں آ رہی مگر مزا سب کو آ رہا ہے۔ اس میں میرے جیسے عام صحافی کے ذہن← مزید پڑھیے
ایک جاپانی لڑکی سے ملاقات ہوئی جو شمالی علاقہ جات سے واپس آرہی تھی اور مردوں کے سفر کے دوران پیش آنے والے رویے پر افسوس کر رہی تھیں ۔ میں نے اس سے بات چیت شروع کی اور بات یہ کی کہ آج یہ سب لوگ اچھے اور بُرے اعمال کر رہے ہیں کسی کا اسے صلہ مل جائے گا اور کچھ رہ جائیں گے اور جو صلہ ملے گا وہ بھی کیا اس کے عمل کے مطابق ہو گا ؟← مزید پڑھیے
اس کا ظاہری چہرہ یہ ہے کہ ہر گھر کے سربراہ کے پاس غالباً دس لاکھ کے قریب روپے ہیں ،جن سے وہ فیملی کا علاج کروا سکتا ہے، یہ چہرہ خوشنما ہے، متاثر کن ہے کہ اب وہ پرائیویٹ← مزید پڑھیے
انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ سوال پوچھتا ہے اور اس کا جواب دینے والا بھی انسان ہی ہوتا ہے تو کیا معاملہ ہے کہ انسان سوال بھی پوچھتا ہے اور جواب بھی دیتا ہے ان دونوں معاملات کا← مزید پڑھیے
سوشل میڈیا پر ہمہ قسم صاحبان علم اپنی عادت متواترہ سے مجبور علمی رائتہ نہایت خشوع و خضوع سے پھیلاتے ہیں ۔ گو یہ ہماری قومی عادات میں سے عادت صحیحہ ہے کہ ہم علمی خدمت میں ہرگز پیچھے نہیں← مزید پڑھیے