ستیہ پال آنند، - ٹیگ     ( صفحہ نمبر 3 )

ٹورسٹ گائیڈ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

میں بھی ٹورسٹ گائیڈ ہوں میں آپ کو اے صاحبو یہ گنبد و مینار یہ اونچی فصیلیں لال قلعے سنگ مرمر کے جھروکے بیگموں کے حوض خاص و عام کے دیوان تخت و تاج کلغی جبہّ و دستار بڑھتے لشکر←  مزید پڑھیے

مجھے پڑھنے والوں کی آنکھیں سلامت رہیں۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

دعا بارگاہ حقیقی میں ہے یہ مری شاعری پڑھنے والوں کی آنکھیں سلامت رہیں تا کہ پڑھتے رہیں و ہ ! سبھی پڑھنے والوں کے شوق وتجسس کی خاطر مری طبع ِ تخلیق اُن کے لیےموتیوں کی یہ لڑیاں پروتی←  مزید پڑھیے

تم تو سیدھے بچپن سے بوڑھے ہو گئے آنندؔ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اپنی ساٹھویں سالگرہ(1977) کے دن تحریر کردہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سن تو، ستیہ پال آنند وید، شاستر، گیتا عمر کی اکائیوں کو آشرم سمجھتے ہیں چار آشرم، جیسے زندگی کے عرصے میں وقت کے پڑاؤ ہیں عازم ِ سفر ہونا شرط ہے←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

کثرت آرائی ء وحدت ہے پرستاری ِ وہم کر دیا کافر ان اصنام ِ خیالی نے مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند یوں تو یہ شعر ہے توحید حقیقی کا نقیب پر، حضور، اس میں ہے اک نکتہ ذرا بے ترتیب←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

مر گیا صدمہ ء  یک جنبش لب سے غالبؔ ناتوانی سے حر یف ِ دم ِ عیسیٰ نہ ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند ذہن میں میرے ہے بیتاب اک عجبک سا سوال ہو اجازت تو میں پوچھ ہی لوں ،←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

نہ حشر و نشر کا قائل، نہ کیش و ملت کا خدا کے واسطے ایسے کی پھر قسم کیا ہے ۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند خدا کے واسطے‘‘ خود میں ہی اک قسم ہے، حضور تو کیا یہ نقص ہے یا←  مزید پڑھیے

وما ارسلنک الا رحمت اللعالمین۔۔ستیہ پال آنند

کئی برس پہلے جب امریکہ  میں اہل اسلام کے خلاف نفرت زوروں پر تھی تو یہ واقعہ پیش آیا کہ میں مسجد کے باہر کھڑا ایک شاعر دوست سے گفتگو میں مصروف تھا۔ قریب سے کار پر جاتے ہوئے دو←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

کمال ِ گرمیٗ سعی ِ تلاش ِ ِ دید نہ پوچھ برنگ ِ خار مرے آئینہ سے جوہر کھینچ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند کوئی حساب بھی ہے ان اضافتوں کا، حضور؟ ’’کمال ِِ گرمی ء سعی ِ ِ تلاش دید‘‘←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

لیتا ہوں مکتب ِ غم ِدل سے سبق ہنوز لیکن یہی کہ ’رفت‘ گیا ، اور ’بود‘ تھا ۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند لیتے ہیں ـ’’مکتب غم ِ دل‘‘ سے، حضور ، آپ کیا کیا سبق جو نکبت و ادبار دے←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدہ ٔ بینا نہ ہوا ——​(عکس ثانی) —- ستیہ پال آنند قطرہ ودجلہ تو ہے جزو کی، تعدیل کی بات قطرہ اسفل ہے ، فرو مایہ←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدہ ٔ بینا نہ ہو ا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند میں نے دجلہ تو نہیں دیکھا، حضور ِ انور وسط مشرق میں کہیں ایک ندی ہے←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

وضاحتی نوٹ! “روبرو غالب” کے تیس سے کچھ اوپر تعداد میں مکالماتی “نظم نا مے” لکھنے کے بعد خدا جانے کیوں یہ شوق چرایا، کہ اپنے استاد محترم کو دو صدیوں کے زمان کی اور امریکہ  /ہندوستان کے مکان کی←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

ہے وہی بد مستی ٔ ہر ذرّہ کا خود عذر خواہ جس کے جلوے سے زمیں تا آسماں سرشار ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند عذر خواہی ۔۔۔ حیلہ جوئی۔۔۔ ادعا ۔۔۔ کچھ لیپا پوتی عذر ۔۔۔ ، عذر ِ لنگ←  مزید پڑھیے

فرید الدین عطار سے خوشہ چینی(نور کیا ہے)۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

نور کیا ہے۔۔ بھاپ سی اٹھتی ہے میرے ذہن کے تحت الثرا سے دھند کا محلول بادل الکحل کی نشہ آور گرم چادر سا مجھے چاروں طرف سے ڈھانپ کر للکارتا ہے گہری نا بینائی کے عالم میں آنکھوں کے←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

قفس میں ہوں گر اچھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو مرا ہونا برا کیا ہے نوا سنجان ِ گلشن کو ۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند جو اک تصویر سی بنتی ہے، قبلہ، وہ فقط یہ ہے ۱) کہ مجبوری کا←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

آمد ِ سیلاب ِ طوفان ِ ِ صدائے آب ہے نقش ِ ِ پا جو کان میں رکھتا ہےانگلی جادہ ہے ستیہ پال آنند بندہ پرور، یہ کرم فرمائیں اس ناچیز پر عندیہ اس شعر کاکیا ہے ، کوئی لب←  مزید پڑھیے

غزل۔ ایک کھوکھلی صنف۔۔۔ستیہ پال آنند

(زوم کی وساطت سے بر پا کیے گئے ایک مباحثے پر  میرا حلفیہ بیان اقبالی) اول تو غزل سے میری بیگانگی کا سبب اُس زمین کا بنجر پن ہے جس میں پہلے ہزاروں بار فصلیں بوئی جا چکی ہیں، کاٹی←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

دل و جگر میں پُر افشاں جو ایک موجہ ء  خوں ہے ہم اپنے زعم میں سمجھے ہوئے تھے اس کو دم آگے ستیہ پال آنند حضور، اس شعر کی تصویر یہ بنتی ہے ذہنوں میں کہ متموج ہے اک←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

تغافل دوست ہوں میرا دماغ ِ عجز عالی ہے اگر پہلو تہی کیجے تو جا میری بھی خالی ہے ستیہ پال آنند حضور، اب کیا کہوں میں آپ کے اس ’’عجز‘‘ کے حق میں کہ ’’فارس‘‘ کی زباں میں آپ←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

آمد ِ خط سے ہو ا ہے سر د جو بازار ِ دوست دود ِ شمع کشتہ تھا شاید خط ِ رخسار ِ دوست ستیہ پال آنند بندہ پرور، آپ سے پوچھوں ، بصد عجز و نیاز کیا نہیں اس←  مزید پڑھیے