میرے جانے کے دن آ گئے پوچھو، کیوں؟ پوچھو، کب؟ ہاں، کسی ایک شب جب اندھیرا نہ ہو ہاں ، کسی ایک دن جب سیہ دھوپ ہو میں چلا جاؤں گا اک ہیولےٰ سا، آبی بخارات سا میں چلا جاؤں← مزید پڑھیے
متوازن تھے، احسن صورت خوش وضعی میں ایک برابر ہم بچپن سے کچھ کچھ کج مج، عدم توازن ہم نے خود ہی ڈھونڈھ لیا ادھواڑ عمر میں نستعلیق، کتابی صورت ۔۔اور اکمل کردار ہمارا شاید قائم رہ پاتے لیکن جانے← مزید پڑھیے
اِک ہری چُگ وسوسوں میں غرق وہمی شخص تھاوہ سوچتا رہتا تھا، پیدا کیوں ہُوا ہے اور اگر ہو ہی گیا ہے اس پراگندہ زمیں پر ایسے ژولیدہ زماں میں کیوں ہُواہے؟ کیا دساور میں کوئی ابنِ سبیل ایسا علاقہ← مزید پڑھیے
لندن کے ان برسوں (1972-75)میں میرا تعلیمی ، تدریسی اور کسی حد تک ادبی لین دین اپنے ساتھی اسکالرز سے ہی رہا جو انگریزی کے حوالے سے تھا۔ اردو کے احباب سے کبھی کبھی ہی ملاقات ہوئی۔ اور وہ بھی← مزید پڑھیے
آج کا دن اور کل جو گزر گیا۔یہ دونوں میرے شانوں پر بیٹھے ہیں کل کا دن بائیں کندھے پر جم کر بیٹھا میرے بائیں کان کی نازک لو کو پکڑے چیخ چیخ کر یہ اعلان کیے جاتا ہے ’’میں← مزید پڑھیے
سو برس کا میں کب تھا، منشی ِ وقت؟ کب نہیں تھے؟ ذرا بتاؤ تو تم یقیناً کہو گے، بچپن میں کھیلنے کودنے میں وقت کٹا جب شباب آیا تو ؟۔۔کہو، ہاں کہو کیا برومند، شیر مست ہوئے؟ کیا جفا← مزید پڑھیے
لکھا کرے کوئی احکام ِ طالع ِ مولود کسے خبر ہے کہ واں جُنبش ِ قلم کیا ہے (غالب) —————— ستیہ پال آنند “لکھا کرے کوئی احکام ِ طالع ِ مولود” حضور، “کوئی” سے آخر مراد کیا ہے یہاں؟ مر← مزید پڑھیے
گذشتہ صدی کی چھٹی دہائی میں میرے مطالعہ کی رفتار بہت تیز تھی۔ یونیورسٹی میں دو پیریڈ پڑھانے کے بعد میرا معمول دوپہر کو قیلولہ کرنا نہیں تھا، لائبریری میں بیٹھ کر کتابیں پڑھنا تھا۔انہی برسوں میں مَیں نے کروچےؔ← مزید پڑھیے
بادل کی آنکھوں میں آنسو بادل کی آنکھوں میں جلتے گنتی کے کچھ آنسو ہی تھے ڈھلک گئے تو اس کو راحت کا کچھ کچھ احساس ہوا، پر نیچے دھرتی پر تو جیسے آگ لگ گئی ایک جھڑی سے دھوپ← مزید پڑھیے
یہ نظم میں نے اپنی موت کے بعد لکھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ سر پھرا ، پاگل تھا وہ اک شخص جس نے دل کے بیت المال سے حاصل شدہ الفاظ کے عمدہ، نمو پرور لہو سے شاعری کی پرورش کی تھی← مزید پڑھیے
مری چشم بینا سے پٹّی تو کھولو مجھے دیکھنے دو یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہاں جنگ کی آگ میں جلتے ملکوں سے بھاگے ہوئے مرد و زن، صد ہزاروں سمندر کی بے رحم لہروں میں غرق ِ اجل ہو← مزید پڑھیے
پرانے زمانے میں، (تم ہی بتاؤ) کہاں تھے یہ مشروب دونوں؟ نہ ’’کافی‘‘، نہ چائے۔۔۔ فقط شوربہ، دودھ، یا سُوپ (بد ذایقہ، بکبکا، ترش، کھٹّا) کبھی گھر کے’’ ـلاہن‘‘کا ’’دس نمبری‘‘ تیز ٹھرّا ‘ یہی سب تھیں پینے کی چیزیں← مزید پڑھیے
غالب کے۲ اشعار پر ریدکتیو اید ابسردم تکنیک سے استوار کی گئی نظم ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ قافیہ بندی صفحہٗ قرطاس پر بکھرے ہوئے الفاظ نا بینا تھے شاید ڈگمگاتے، گرتے پڑتے کچھ گماں اور کچھ یقیں سے آگے بڑھتے پیچھے← مزید پڑھیے
سوال مسخ شدہ، بد زیب، اُوپرا چہرہ بد وضعی، بد زیبی کی تزئین میں اجبک کل کا حسن مثالی ۔۔۔آ ج کا بد ہیئت، بے ڈھنگا بول آ ئینے، کیا پیری کا یہی ہے چہرہ؟ جواب حجریات سے باہر نکلو،← مزید پڑھیے
صد پہلو تو کوئی نہیں ہوتا دنیا میں دو ہی تو پہلو ہیں تیرے،ستیہ پال یا دایاں ہے یا ہے بایاں ایک توازن، خوش وضعی میں نستعلیق دُوجا عدم توازن،کج مج ، ٹیڑھا میڑھا سر مایہ، اور محنت، مالک َ← مزید پڑھیے
وہ نیک لڑ کی تھی صلح کل، پاکباز، بے داغ، بھولی بھالی وہ اپنی معصوم نیک چلنی میں لپٹی، لپٹائی باکرہ اک غریب گھر کی کنواری کنیا ذرا سے اونچے، امیر گھر میں بیاہی آئی تو اپنے شوہر کے لڑ← مزید پڑھیے
ایک دن جب عالم ِ ارواح میں بیٹھے ہوئے ایون” کے شاعر ’شیکسپیئر‘ نے یہ پوچھا جارج برنارڈ شاء سے” اے مسخرے ، کیا تو نے غالبؔ کو پڑھا ہے؟ مسکرایا جارج برنرڈ شا ۔۔۔ بولا ہند کے اس شاعر← مزید پڑھیے
خارہااز اثر گرمی رفتار می سوخت منّتے ہرقدم راہ روانست مرا (غالب) شعر کا آزاد ترجمہ کچھ یوں ہے: میری تیز روی کی حدت نے راہ میں بکھرے ہوئے کانٹوں کو جلا کر راکھ کر دیا ہے۔ اس لئے اب← مزید پڑھیے
ہم فاسق، فاجر ہیں، مولا ہم عاصی، بدکار ہیں، لیکن ہم تیرے بندے ہیں، مالک ناقص، اسفل، خطا کار ہیں نا بکار، آثم، بے تائب لیکن تیرے روپ کے داعی ہم تیرے ہی جنم جات ہیں ولی، سنت ، صوفی← مزید پڑھیے
ستیہ پال آنند کی خوفناک تصویر آنند جی دکھ کی باتیں نہ کریں پشتو زبان کی خوبصورت لہجے کی شاعرہ حسینہ گل تنہا کاکا خیلہ کی نظم “لچهے والا” رہتا تو یہ شخص یورپ میں ہے ،ہے بهی بوڑها ،← مزید پڑھیے