میرا پچھلا کالم” شادی “۔۔ شادی۔۔۔۔ روبینہ فیصل سوچ کی ایک کھڑکی کھولنے کی کوشش تھی ۔ وہ ایک بچی کا اندرونی کرب تھا جو کینیڈا جیسے ملک میں رہتے ہو ئے بھی اس گھٹن کا شکا ر تھی جو← مزید پڑھیے
شب دو بج کر پینتیس منٹ پر میرے دماغ نے آخر کار اُس ناسور کے آگے ہتھیار ڈال دیے جسے وہ کئی برس سے بڑی محبت اور لگن سے پال رہا تھا، پہلے لیپ ٹاپ کی اسکرین ہلکے ہلکے دھندلی← مزید پڑھیے
کل رات چاند کی جانب دیکھا تو چاند لالی اوڑھے،اداسی میں ڈوبا ہوا نظر آیا ۔۔بڑی حیرت ہوئی کہ اتنے روشن چہرے پہ افسردگی۔ نہ جانے یہ کس بات کا شگون ہے خدا خیر ہی کرے۔ نہ جانے یہ کس← مزید پڑھیے
تالیوں کی گونج نے سیمینار کے اختتام کا اعلان کیا تو وہ اپنا بیگ اٹھا کر سُست روی سے قدم بڑھاتی ہوئی ہال کے خارجی دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ وہ دروازے سے چند قدم دوری پر تھی کہ کسی← مزید پڑھیے
یہ اس بستی کا قصہ ہے جہاں لوگ غربت کی وجہ سے ناستک ہورہے تهے اور آج اسی بستی میں ناستک برادری زندگی کے خلاف پہلا مظاہرہ کررہی تھی، میں یہ سوچ کر وہاں چلا گیا کہ شاید دنیا کو← مزید پڑھیے
جہیز ایک ناسور ہے جو ہمارے معاشرے میں کینسر کی طرح پھیل چکا ہے۔ اس لعنت نے لاکھوں بہنوں اور بیٹیوں کی زندگی کو جہنم بنا رکھا ہے۔ ان کی معصوم آنکھوں میں بسنے والے رنگین خواب چھین لئے ہیں۔← مزید پڑھیے
گھر کے امور سے فراغت کے بعد جب t.v. چینل پر نظر پڑی تو اک چار بچوں کی ماں کے قتل کی خبر نے دل و دماغ کو سن کر ڈالا۔آج پھر گھریلو ناچاکی نے ایک صنف نازک کی جان ← مزید پڑھیے
وہ دوپہر سے ہی سر پکڑے روئے جا رہی تھی ابھی سرمد کے آنے میں خاصا وقت تھا۔ شاید اس کے آنے پر ہی معاملہ کچھ سلجھے۔۔۔۔ لیکن مسئلہ اس حد تک پریشان کن تھا کہ وہ ابھی سے خاصی← مزید پڑھیے
“ارے۔۔۔ بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے؟۔ جب دیکھو اور جسے دیکھو بس نصیحت پہ نصیحیت کرنے پر تلا ہے۔۔۔ سب کا بس مجھ ہی پر کیوں چلتا ہے؟” جینا ، ان وقت ناوقت ملی نصیحتوں کی بھرمار سے بری← مزید پڑھیے
ہسپتال کی دوسری منزل کے کمرہ نمبر ۴ سے آواز آئی ’’ماشااللہ بیٹا پیدا ہوا ہے‘‘۔ ایک تیسرا ہجوم تالیاں بجاتا ہوا کمرے میں داخل ہو کر مبارکباد دینے لگا۔ اُن کی تواضع میٹھایوں اور پیسوں سے کی گی۔ تبھی← مزید پڑھیے
تھانے کے چکر لگاتے ہوئے چتن بھیل کو آج تیسرا دن تھا اسکی بیٹی اغواء ہوئی تھی اسکے جگر کا ٹکڑا لاڈوں پلی سونیا جو ایک دن بھی بابل سے دور نا رہی آج تیسرا دن ہونے کو تھا مگر← مزید پڑھیے
وہ چاہتی ہے میں بہت کچھ لکھوں، اتنا کچھ کہ کسی دوسرے مصنف نے نہ لکھا ہو۔ وہ چاہتی ہے، میں فیمنزم کے حق میں لکھوں، مرد جو صرف اپنی انا کا مارا ہے اور صرف ذاتی مفاد کے سوا،← مزید پڑھیے
ایک عجیب سی بے بسی کا امڈتا ہوا سمندر اس کی آنکھوں سے عیاں تھا۔ چہرے پر انمٹ صدمات کی دھول عمیق اداسیوں کی مہر ثبت کر چکی تھی۔ اب تو شاید، اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بھی بوڑھی← مزید پڑھیے
“تو یہ سنو۔ لنکن پارک کا نمب۔ ایک تو یہ راک میوزک ہے۔ دکھوں کی فریکوینسی سے میل کھاتا۔ دوسرا مجھے اس گانے میں اپنی کہانی سنائی دیتی ہے”۔ چیسٹر بیننگٹن کو پہلی بار سننا عاصم کے لیے کسی حد← مزید پڑھیے
امریکہ میں شاید کوئی آپ کو ایساامریکی مل جائے جسے نائن الیون کے بارے علم نہ ہو لیکن اٹلی میں آپ کو ایسا کوئی اطالوی نہیں ملے گا جو اخبار پڑھتاہو اور اسے حنا سلیم کے بارے کچھ پتہ نہ ہو← مزید پڑھیے
جو انسان بزدل اورکمزور ہو تا ہے، پستا رہتا ہے لیکن جب اسے موقع ملتا ہے تو وہ ظالم سے بھی بڑا ظالم بن جا تا ہے کیونکہ بے حسی اس کی رگ رگ میں اتر چکی ہو تی ہے۔اس← مزید پڑھیے
اسے انگلش لٹریچر بہت پسند تھا ا س لئے اس نے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کرنے کیلئے فیصل آباد یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیا۔ اس کے کلاس فیلو کہتے ہیں وہ بہت سنجیدہ، ذہین اور الگ تھلگ رہنے والی لڑکی تھی۔← مزید پڑھیے
لال رنگ کی نیکر اور اُس پر کالے رنگ سے بنے ہوئے کچھ نقش ،نیکر نئی تھی، پر اُس پر پہنی ہوئی قمیض پُرانی، دیوار سے لگا جانے میں کس بات پر اچھل رہا تھا یاد نہیں ، امی جان← مزید پڑھیے
آمنہ آئی ٹی میں ماسٹرز کر کے فارغ ہی ہوئی تھی کہ اس کے گھر میں اس کی شادی کے لیے لوگوں کا آنا شروع ہو گیا ، کچھ اس کی کلاس فیلو لڑکیوں کے بھائی تھے اور کچھ جاننے← مزید پڑھیے
اس کی طبعیت کچھ بوجھل تھی۔اور گھر کا ماحول میں جھجھک ہونے کی وجہ سے اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس بوجھل پن کی وجہ ماں کو کیسے بتائے۔۔۔۔ وہ ایک مقامی لیڈی ڈاکٹر کے پاس گئی← مزید پڑھیے