یہ سردی کی ایک ٹھٹھرتی شام تھی۔ایک طرف آوارگی تو دوسری طرف نیند کا بوجھ انتہا پر تھا۔ آوارگی اس لیے کیوں کہ میں سوچ کے حصار میں گم نہ جانے گلیوں کے پیچ و خم سے ہوتا ہوا کدھر← مزید پڑھیے
اکیسویں صدی کے آغاز میں بے قلعی منفیت ، ثنویت ،بے سمتی، یک منزلہ سفر کی تکرار ، ذہنی نارسائی ، شناختی بحران اور مختلف نفسیاتی کمپلیکس انسانی ساخت کا مرکز بن کر تمام علمیاتی انقباض کی از سر نو← مزید پڑھیے
حیات آباد کی گلی سے آواز آئی۔ وقت کا کباڑیا پرانی سی ایک سائیکل پر دونوں طرف حاصل کی بوریاں سی باندھے صدا لگا رہا تھا “پرانی چیزیں بیچ لو” کباڑ بیچ لو۔ ۔ وقت نامی کباڑیا ایک کچے مکان← مزید پڑھیے
ہمارے اَدب میں کلاسیکی رحجانات کی بجائے رُومانوی رحجانات کی اَجارہ داری رہی ہے ۔شاید اِس لئے کہ اُردو اور پھر اِس کا بیشتر ادب ایک زوال پذیر اور زوال زدہ معاشرے کی پیدوار ہے ۔ اردو نے جنم لیا← مزید پڑھیے
دریشہ اپنی ماں اور نانی کے ساتھ جب سمندر کنارے پہنچی تو سورج غروب ہو رہا تھا۔ گلاب کے رنگ میں نہائی کائنات سونے کی طرح چمک رہی تھی۔ سر پر تیرتے لال اور شوخ سرخ بادلوں کا رنگ بیان← مزید پڑھیے
آج مجھے مرے ہوئے ایک سال کا عرصہ بیت گیا ہے آج میری Death anniversary ہے کاش آج مجھے فرصت مل ہی جاتی تاکہ میں اپنی بغیر کتبے والی پرانی قبر پہ جا کر اپنے لئے فاتحہ پڑھ پاتا← مزید پڑھیے
بلراج کومل کے افسانوں میں جو چیز سب سے پہلے متوجہ کرتی ہے وہ ان کے افسانوں کا “تنوع” ہے۔ یہ تنوع موضوع کا بھی ہے، تکنیک کا بھی اور اسلوب کا بھی۔ تنوع کی یہ کثرت اگر ایک طرف← مزید پڑھیے
اس بار بھی بارش نہیں ہوئی ۔۔۔ کرم دین نے اُڑتے ہوئے بادلوں کو دیکھ کے مایوسی سے آہ بھری۔ جانے یہ بارش کب ہوگی؟ کب اتنا مینہ برسے گا کہ اچھی فصل ہو اور پیٹ بھر اناج گھر میں← مزید پڑھیے
میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا ہر فکر کو دھویں میں اڑاتا چلا گیا صرف ایک سگریٹ اُردو دنیا کے چیخوف راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ ہے۔ یہ کہانی چوبیسوں گھنٹوں پر مشتمل ہے جو سنت← مزید پڑھیے
میں نے عید کی چھٹیوں کے ساتھ اضافی چھٹیاں بھی لے لیں تھیں تاکہ اس بار گھر جا کر ابّا جان کا مفصل چیک اپ کروا سکوں۔ پچھلے ٹرپ پر ابّا جان مجھے نسبتاً زیادہ خاموش اور کمزور لگے تھے← مزید پڑھیے
ہم نے جب اس بند گلی میں گھر لیا تو صفیہ پہلی پڑوسن تھی جو مجھے آکر ملی ۔اس کامکان چار گھر پیچھے بند گلی کا آخری گھر تھا ۔ پھر دوتین مہینوں میں پتہ ہی نہیں چلا کب وہ← مزید پڑھیے
جُون23، 1973 جھیل سلیٹی آئینے کے بھیس میں فضا میں اُڑتے پتنگوں کو ورغلا کر اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ پانی کی چادر کے بالکل نیچے متوقع مچھلیاں سبک رفتاری سے اُس چادر کو توڑتیں اور پتنگوں کو نِگل لیتیں۔← مزید پڑھیے
لندن کے ایک انگریزی ریستوران میں بھرپور توجہ کے ساتھ کھانا کھاتے ہوۓ میں ایک دم سے چونکی، “ذرا اپنی بائیں جانب دیکھو”۔ میری دوست رمشہ نے مجھے کہنی سے ہلکا سا ٹہوکا دیتے ہوئے میرے کان میں سرگوشی کی۔← مزید پڑھیے
سمیرا کہنے لگی “مردوں کے پاس ایک کہانی کو چھپانے کیلئے کتنی کہانیاں ہوتی ہیں ۔اور ہم عورتوں کے پاس ہزار درد چھپانے کا بس ایک ٹوٹکا ۔ ” اینویں ۔۔امی یادآگئی تھیں ” میں سمیرا کی بات سُن کر← مزید پڑھیے
سزا گرچہ یہ ہمارے شعبہ کا قاعدہ ہے کہ خوش پوشی اور قرینہ و سلیقہ سے زندگی گزاری جائے لیکن میری طبیعت اس سے رغبت نہیں رکھتی۔ میں درویش خصلت تو نہیں لیکن سادہ مزاج ضرور ہوں، جہاں اور جیسا← مزید پڑھیے
ایک کہانی وہ تھی جسے وہ لکھتی تھی اور ایک کہانی وہ تھی جس کا لکھا وہ بھوگتی تھی، دونوں کہانیاں بالکل مختلف تھیں مگر گڈ مڈ ہو ہو جاتی تھیں۔ پھر جو وہ لکھنا چاہتی تھی، اس سے لکھا← مزید پڑھیے
اے کرشا گوتمی! تُو پھر آگئی۔ وہ دن جب سدھارتھ کی بیوی یشودھرا کی امیدوں کے باغ میں پھل آیا اس دن تو خیر مقدمی گیت گا رہی تھی۔ خوشی کا گیت۔۔ ” سب خوش ہیں، باپ خوش، ماں خوش← مزید پڑھیے
امریکی دستوری نظام میں دستور کو ان ریاستوں کے درمیان طے شدہ معاہدہ مانا گیا ہے جنہوں نے مل کر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے وفاق کی تشکیل کی اور اس نظام میں سپریم کورٹ کو اس معاہدے کے محافظ← مزید پڑھیے
یہ آج کے تھیڑ لکھنے والے اور افسانہ نگاروں کے ہاں ان کرداروں پر نئی کہانیاں لکھنے کا دم کیوں نہیں ہے اور مجھے تو منٹو جیسا کوئی مرد نہیں ملا جو ” زنانیوں پر اس طرح سے جم کر← مزید پڑھیے
تمہیں پتہ ہے اس کرّہ زمین پر انسان نامی نوع میں سب سے رذیل اور گھٹیا اور موذی ترین انسان کون ہیں؟ قاتل، ریپیسٹ چور، ڈاکو، حتیٰ کہ جانوروں اور بچوں پر تشدد اور ذلالت کرنے والے بھی نہیں! سب← مزید پڑھیے