• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان میں بڑھتی ہم جنس پرستی اور اسکا تدارک۔۔عمیر فاروق

پاکستان میں بڑھتی ہم جنس پرستی اور اسکا تدارک۔۔عمیر فاروق

میں سماجی مسائل پہ کم ہی لکھتا ہوں، کیونکہ پاکستان سے نکلے بہت عرصہ ہوچکا ہے، لیکن ان دِنوں  نجی  ذرائع سے وہاں کی کچھ خبریں  مجھ تک پہنچیں تو   اس  حوالے سے لکھنے  پہ مجبور ہوگیا۔خدا کے لئے اپنے بچوں اور اپنی اگلی نسل کو بچا لیں۔ تب بھی دیکھا تھا لیکن اب اطلاع ہے کہ یہ رجحان خطرناک طور پہ بڑھ رہا ہے۔ ہماری حماقت ہے کہ ہم نے اپنے معاشرہ پہ پابندیاں لگا کے یہ تصور کرنا شروع کردیا کہ سب پاک صاف ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان پابندیوں کی ہی وجہ سے گند بہت بڑھ چکا ہے ،جو قالینوں کے پیچھے دبایا جارہا ہے۔

ہم مغرب یا باقی آزاد دنیا پہ یہ تنقید کرتے ہیں کہ وہاں شادی سے قبل بھی جوڑے کو جنسی تعلقات کی آزادی ہوتی ہے،لیکن ان کے پاس اس کی وجہ موجود ہے کہ شادی سے قبل تسلی کر لی جائے کہ جوڑا مستقل ہوگا یا نہیں ؟ کیونکہ یہاں ہر کوئی شادی کے ضمن میں آزاد ہے۔ ماں باپ رشتہ طے نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے میں دل چسپی رکھنے والے اپنی آزاد مرضی سے شادی کرتے ہیں۔
اس کے نتائج جتنے بھی بُرے ہیں  لیکن ہم جتنے بُرے نہیں۔ مثلاً یہاں کبھی بھابھی یہ نہیں کہتی کہ نند کے ساتھ ملوث ہونا ہے تو پہلے مجھ سے ملوث ہو، یا ماں یہ نہیں کہتی کہ بیٹی کے ساتھ جانے کی اجازت تب ملے گی جب میرے ساتھ جاؤ۔ ۔ہمارے ہاں یہ ہوتا آیا ہے۔

لیکن ان سب سے قطع نظر اہم بات چائلڈ سیکس کی ہے۔ مغرب نے اس برائی کو پہچانا اور اس پہ سخت قوانین بنا دیے، یہاں پرائمری کے بچے کو یہ بتایا جاتا ہے کہ کوئی بھی شخص آپ کے کچھ پرائیویٹ حصوں کو ٹچ بھی کرے تو اس کا مطلب کیا ہو سکتا ہے لہذا فوراً اپنے والدین اور حکام کو اطلاع کریں کہ یہ شخص پکڑا جائے اور سخت ترین سزا کا مستحق ٹھہرے۔
ہمارے ہاں یہ چیز نہیں ہے اور اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟
مدارس اور سکولز میں کم عمر بچے بچیاں اساتذہ کے رحم و کرم پہ ہوتے ہیں۔ مذہبی مدارس اور ادارے  میں زیادہ ایسا ہورہا ہے  کیونکہ عوام ان پہ اندھا اعتماد کرتے ہیں۔
اب ہمارے ہاں ہو کیا رہا ہے؟
ہم جنس پرست کس طرح بنتے ہیں ؟
ابتدا بچے بازی سے ہوتی ہے جس کو ہم نارمل لیتے ہیں لیکن کیا کبھی کسی نے اس فعل کی حرکیات کا جائزہ لیا ہے ؟ بی اے کی نفسیات پڑھنے کے دنوں میں اس موضوع پہ بہت سر کھپایا اور ریسرچ کی۔ اس تحقیق سے آپ کو بھی آگاہ کرتا ہوں۔

بچے باز ہمارے اس خیال کے برعکس کہ وہ بچوں کا ریپ کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ دو طرفہ ہوتا ہے اور بچہ خود بھی   لطف  لے رہا ہوتا ہے، اس لیے راز کو راز رکھتا ہے۔ تفصیل بتانے کی ہمت نہیں لیکن حاصل ِ کلام عرض کر دیتا ہوں۔ کوئی بھی استاد ، قاری ، حافظ یا بڑا کزن جو دراصل بچے کا پاپا فگر کا رول ادا کر رہا ہوتا ہے اور جاہل والدین اس پہ اعتماد کر رہے ہوتے ہیں ،وہ یہ کرتا ہے۔ اور عام خیال کے برعکس اس سے ریپ نہیں کرتا بلکہ اسے اعتماد میں لے کر اس کو دوست بناتا ہے( جہاں والدین غلبہ کھا جاتے ہیں ) اس کے بعد بچے کے حساس حصوں کو مذاق مذاق میں چھیڑتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کی مشت زنی کرتا ہے۔

بچے کو احساس ہوتا ہے کہ یہ غلط ہے لیکن اسے بھی  لطف  آرہا ہوتا ہے تو اس کو راز میں رکھتا ہے، اگر بچہ ایسا نہ ہو تو یہ dominant character اسے ڈرا کے چپ کرا دیتا ہے۔ اس طرح ہوتا یہ ہے کہ بچہ مزہ  لیتے لیتے درد کا بھی عادی ہو جاتا ہے، جسے pain and pleasure کا کھیل کہتے ہیں۔ جب وہ بالغ ہوتا ہے تو یہی اپنے سے کم عمر بچوں کے ساتھ ڈرا دھمکا کے کرنے لگتا ہے۔ اب یہاں ہوتا یہ ہے کہ اس کی جنسیت ہی مکمل طور پہ تبدیل ہو جاتی ہے۔ وہ عورت کی بجائے مرد کو جنسی آبجیکٹ کی نظر سے دیکھنے لگتا ہے۔ اس کے جو نتائج نکلتے ہیں ان پہ الگ  مضمون  کی ضرورت ہے۔
لیکن یہاں اگلے جس خطرے  کی نشاندہی والدین کو کرنا مطلوب ہے وہ کم سن بچیوں کے بارے میں ہے۔ ایسے لوگ اس طریقہ کو اپنی جنسی فرسٹریشن کو نکالنے کو آسان ذریعہ سمجھ لیتے ہیں۔ جنس مخالف سے رغبت فطری اور قدرتی ہے ،یہ لوگ احساس جرم کا شکار ہوتے ہیں تو جوان لڑکی یا عورت سے جنسی تعلق قائم کرنے سے ڈرتے ہیں سو اس کا آسان حل یہ کم عمر نابالغ بچیوں سے جنسی تعلقات قائم کرنے میں نکالتے ہیں اور انکی تکنیک وہی ہوتی ہے جو بچے کے ضمن میں تھی تو یہ کامیاب ہو جاتے ہیں۔
ایسے بچے اور بچیاں پھر بعد میں معاشرہ میں کیا رول ادا کرتی ہیں اور اس کا معاشرہ کا کیا نقصان ہوتا ہے ؟اس سے کون واقف نہیں ۔
خدارا اپنے بچے کے سب سے بہتر دوست آپ خود بنیں تاکہ اس کو اعتماد حاصل ہو اور وہ آپ کو سب بتا سکے۔

بچوں کو ایسے شیطانوں سے بچانے کے لیے ایک حفاظتی باڑ تو کافی معروف ہے اور تھمب رول ہے کہ بچے کو گائیڈ کیا جائے کہ کوئی  بھی شخص ، چاہے کتنا ہی قریبی  کیوں نہ ہو، اس کے جسم کے کچھ اعضا کو ہرگز نہ چھوئے اور اگر دانستہ ایسا کرتا ہے تو بچہ فوراً والدین کو رپورٹ کرے۔

دوسری دفاعی لائن ہے اپنے ماحول میں خطرناک لوگوں کو پہچاننا اور انکو بچوں سے دور رکھنا۔ عام طور پہ اس میں کریمنل مائنڈ والے ریپسٹ پہ دھیان دیا جاتا ہے اور والدین ایسے لوگوں سے اپنے بچوں کو دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ لیکن عمومی طور پہ بچوں میں یہ جبلت ہوتی ہے کہ خود ہی ان سے خطرہ محسوس کرتے دور رہتے ہیں۔

یہاں ہم ایک اور ٹائپ آف پرسنیلٹی پہ بات کریں گے جس کے بارے میں گمان بھی نہیں گزرتا اور وہ اس پہلی حفاظتی لائن کو کامیابی سے عبور کرنے کا بھی اہل ہوتا ہے۔

یہ ایسا فرد ہوتا ہے جو اپنے بچپن میں کسی پیڈوفائل کی طرف سے یوں مسلسل استعمال ہوا ہوتا ہے کہ نہ صرف اس کا عادی ہوجاتا ہے بلکہ اس کا اپنا فطری جنسی میلان ہی تبدیل ہوکر ہم جنسیت کی طرف چلا گیا ہوتا ہے۔

ان کی کچھ نشانیاں ہیں  جن سے ایسے کردار کی شناخت میں مدد مل سکتی ہے۔

عموماً نوعمری کو پہنچ کر ،جب وہ اپنے ریپسٹ سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے ، تو وہ مذہبیت کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اب اس رویہ کی وجہ کیا ہوتی ہے ؟

شاید وہ اپنے احساس جرم یا گناہ سے چھٹکارا پانے کے لیے مذہب کا سہارا لیتا ہے۔ دوسری ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جب وہ اپنے ہم عمروں میں نارمل ہونے کی کوشش کرتا ہے تو اس پہ انکشاف ہوتا ہے کہ وہ ان سے بہت مختلف ہے۔ اِسکی طرح اُن کو جنس ِ مخالف میں کشش نہیں محسوس  ہوتی، اور نہ ہی نظر بازی یا ٹھرک میں دلچسپی ہوتی ہے۔ اسے پتہ ہے کہ وہ منفرد ہے لیکن خوب جانتا ہے کہ کیوں مختلف ہے تو اس کے چھپانے کے لیے مذہب کا سہارا لیتا ہے۔ اور یوں اپنی اس کمزوری کو چھپاتا ہے۔

بعد میں نوجوانی تک پہنچنے پہ بعض اوقات یہ لبادہ اُتر بھی جاتا ہے لیکن عموماً نہیں اُترتا، کیونکہ اپنے شوق اور اصل رجحان کو چھپانے اور لوگوں کا اعتماد لینے کے لئے یہ ایک اچھی آڑ ثابت ہوتی ہے۔

اس کی نوجوانی اور نوعمری کی زندگی جنس ِمخالف کے ساتھ کسی سکینڈل سے پاک ہوتی ہے جو ہمارے معاشرے میں نیک فرد کی پہچان ہے سو اس پہ فیملیز اعتبار کرتی ہیں اور یہی اس کا سب سے خطرناک پہلو ہے۔

ایسا کردار متشدد ہرگز نہیں ہوتا اور بچوں سے خصوصاً دوستی کرتا ہے اور ان سے شفقت برتتا ہے۔

اس کردار کو اس کے تصور ِحسن سے پہچاننا اور شناخت کرنا آسان ہے۔ جس طرح ایک عام فرد سے دو قبول صورت مردوں کے بارے میں پوچھا جائے کہ ان میں سے کون نسبتاً پُرکشش ہے تو عام طور پہ وہ بتانے سے قاصر ہوتے ہیں اور ان کو ایک جیسا ہی گنتے ہیں لیکن اگر اسی فرد سے آپ دو اسی طرح کی قبول صورت خواتین کے بارے میں پوچھیں تو وہ جسمانی کشش کا ہلکا سا فرق بھی تلاش کر کے بتا سکتے ہیں کہ کون نسبتاً پُرکشش ہے۔

ایسے فرد کے بارے میں معاملہ الٹ ہوجاتا ہے وہ دو قبول صورت مردوں میں بھی جسمانی کشش کا ہلکا سا فرق خوب شناخت کر لیتا ہے۔ لیکن عملی زندگی میں یہ ٹیسٹ باقاعدہ کرنا تو مشکل ہے البتہ اس کے غیر ارادی کمنٹس سے سمجھا جا سکتا ہے۔

ایک معاملے میں تو آسانی سے ایکسپوز ہوجاتا ہے اگر مشاہدہ کرنے والا باریک بین ہو۔ اس پہ پُرکشش مرد کا وہی نفسیاتی اثر ہوتا ہے جو ایک عام مرد پہ پُرکشش خاتون کا ہوتا ہے چاہے وہ مرد سختی سے غیر ہم جنس پرست ہو تب بھی۔ پُرکشش مرد کی کسی بات کا اسے انکار کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔

اس موقع پہ اس کے چہرے کے تاثرات اور باڈی لینگویج سے آسانی سے پڑھا جا سکتا ہے۔ حتی کہ وہ کھل کر یا چوری چھپے اسے دیکھتا بھی رہتا ہے۔

اگر یہ شادی شدہ ہے تو شادی کے بعد اس کا بھید اس کی بیوی سے چھپا نہیں رہتا وہ اس کی اصل دلچسپی اور مشاغل سے واقف ہو جاتی ہے، کیونکہ شادی وہ معاشرتی مجبوری کی ہی وجہ سے کرتا ہے۔ہماری معاشرتی روایات کی وجہ سے اس صورت میں کم ہی طلاق ہوتی ہے سو ایک خاموش سمجھوتہ ہوجایا کرتا ہے۔ ایسا شخص بیوی کے کسی سکینڈل کو سننے کے بعد اَن سنا کردیا کرتا ہے۔

اگر آپ اپنے اردگرد کے ماحول میں ایسا شخص دیکھیں تو اپنے بچوں کو اس سے بچائیں اور ا ن کو اس کے بارے میں خصوصی طور پہ خبردار کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ مغرب میں ایسے لوگوں کو   چاہے چھپے بھی ہوں، خواتین فورا ً شناخت کر لیتی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی پُرکشش مرد کو دیکھتے ان کے احساسات اور رویہ وہی ہوتا ہے جو خاتون کا ہوتا ہے۔ کاش ہماری خواتین بھی توجہ دیں۔

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply