ادب نامہ    ( صفحہ نمبر 74 )

اتنی مداراتوں کے بعد(2،آخری حصّہ)۔۔شاہین کمال

16 دسمبر 1971 کو ملک دو لخت ہوا اور میں یعنی شہباز علی ولد نثار علی اسی سیاہ رات تولد ہوا۔ کیسا محروم بچہ جس کی پہلی چیخ کے ساتھ اس کی ماں اور دادی کی آہ و بکا بھی←  مزید پڑھیے

برانڈڈ کفن۔۔آنسہ رانا

اس نے شہر کی معروف مارکیٹ میں گاڑی روکی اور وہاں پرہجوم دیکھ کر ایک لمحے کو اس نے سوچا کہ واپس چلی جائے ۔ مگر پھر اسے والدہ کا خیال آیا ، جو پچھلے تین دن سے اس کو←  مزید پڑھیے

​برق ہنستی ہے۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اوّلون و التمش۔۔۔ابداع، ابجد، الفا ، بِیٹا اور پھر یکلخت ختمہ، ٹرمینل، التام، القط عشق پیدا میشود در لمحۂ گزران و استعجال شاید اور غالب زندگی اور عشق کے دورانیے کو شعشعہ میں ڈھالتا ہے۔۔ برق ہنستی ہے کہ فرصت←  مزید پڑھیے

اتنی مداراتوں کے بعد(حصّہ اوّل)۔۔شاہین کمال

بچپن سے سنتے آئے ہیں سفر وسیلہ ظفر، لیکن کچھ سفر ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں دل گھائل ہوتا ہے اور تل تل ڈوبتا ہے۔ منزل جیسے جیسے قریب آتی جاتی ہے ، روح بدن کا ساتھ چھوڑتی محسوس←  مزید پڑھیے

الفاظ -ایک استغاثہ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

رن آن سطور میں لکھی گئی ایک نظم مستغیث ایک میں الفاظ کا بخیہ گر ہوں، مجھے اچھا لگتا ہے حرف و سخن کا توازن مقفیٰ، مسّجع، وہ الفاظ جن سے ترنم کی چشمک ، تغزل کا جادو سریلی، مدھُر،←  مزید پڑھیے

مجسم آوازیں۔۔شاہین کمال

میری طبیعت  بہت دنوں سے خراب تھی اور میں انتظار کی کوفت سے خائف ہسپتال جانے سے گریزاں تھا، پر جب سینے کی دکھن بڑھی اور سانس بھی غیر متوازن ہوئی تو ہسپتال کی راہ لینی ہی پڑی۔ حسب ِ←  مزید پڑھیے

پانچ مچڑے ہوئے نوٹ۔۔حبیب شیخ

خدا بخش گھبرایا گھبرایا سا تھا اتنے سارے لوگ، کچھ پڑھے لکھے، کچھ دولت کی انا میں اکڑے ہوئے، کچھ سرکاری عہدوں پر فائز آقا بنے ہوئے۔ اسے انجینئر کے کمرے تک پہنچنا تھا۔ وہ تو پانچ ایکڑ زمین کا←  مزید پڑھیے

ظلمت سے نور کا سفر(قسط19)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

اس لیے میں نے محافظ نہیں رکھے اپنے مرے دشمن مرے اس جسم سے باہر کم ہیں پانچ دن بعد شام کے وقت وہ پرندوں کو مغربی سمت میں لوٹتا دیکھ رہی تھی ۔شاید زندگی کی طرف لوٹنے کا وقت←  مزید پڑھیے

“عکس” (2،آخری حصہ)۔۔نیّر عامر

اعجاز آج خاصے خوشگوار موڈ میں تھا۔ وہ سعد کے ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد پہلی مرتبہ اس کے گھر آیا تھا اور ساتھ میں بہت سے پھل، جوس کے ڈبے اور کھانے پینے کا کافی سامان بھی لے←  مزید پڑھیے

انا ابھی فعال ہے۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

نہیں، نہیں کہ جان کا خروج نا گزیر ہو تو ہو مگر مری انا کا ذات سے خروج ایک جھوٹ ہے بتا چکا بتا چکا، نجومیوں کو، غیب دان کاہنوں کو ہاتفوں کو، کااشفوں کو جوگیوں کو، راہبوں کو لاکھ←  مزید پڑھیے

چپڑ چپڑ۔۔سیّد محمد زاہد

”میرا خیال تھا کہ  آج وہ مجھے نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ہائے ہائے! مجھے تو بتایا گیا تھا کہ وہ بڑا پرہیز گار ومتقی  عالم ہے۔ صرف پڑھنا پڑھانا ہی اس کا  واحد شوق ہے۔  استادالاساتذہ ہے۔ اُف اللہ!←  مزید پڑھیے

ادب نامہ۔ “ابلاغ” (مائیکرو فکشن)۔۔نیّر عامر

“یہاں آئیے! یہ دیکھیے! ہم آپ کو بتائیں گے، یہاں کتنی گندگی ہے۔ اتنے کوڑے میں کیا کیا غلاظتیں چھپی ہیں، ہم ہر ایک کی مکمل تفصیلات تک رسائی حاصل کر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں، اگر کوئی آپ تک←  مزید پڑھیے

میری نظریہ سازی میں کیا کچھ محرک ثابت ہوا۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی میں میرے مطالعہ کی رفتار بہت تیز تھی۔ یونیورسٹی میں دو پیریڈ پڑھانے کے بعد میرا معمول دوپہر کو قیلولہ کرنا نہیں تھا، لائبریری میں بیٹھ کر کتابیں پڑھنا تھا۔انہی برسوں میں میں نے کروچےؔ←  مزید پڑھیے

سِکّہ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

میں آج بد نما، گھسا پٹا ہوا پُرانا، مَیل خوردہ سکّہ ہوں۔۔ مجھے چھُوا ہے سینکڑوں غلیظ انگلیوں کے مَیل نے مجھے بھرا گیا ہے گندی تھیلیوں میں بٹوؤں میں ٹھونس ٹھونس کر سدا مجھے دیا گیا ہے کاروبار، لین←  مزید پڑھیے

تین زاویے۔۔عنبر عابر

“کافی اداس کن تصویر ہے” میرے دوست نے سامنے میز پر پڑی تصویر کو بغور دیکھتے ہوئے افسردہ لہجے میں کہا۔تصویر میں ایک چھوٹی بچی کسی ریڑھی کے پاس کھڑی رو رہی تھی۔قریب ہی اس کا ہم عمر بچہ پلیٹ←  مزید پڑھیے

قصہ ایک پیڑ کا۔۔ادریس آزاد

اک شجر کا قصہ ہے درد کی کہانی ہے جس کی بیکراں شاخیں آسماں کو چھوتی تھیں رعب دار تھا اتنا مشک بار تھا اتنا اس کے سبز شملے کو سرفراز پتوں کو سب شجر ترستے تھے اس کی شان←  مزید پڑھیے

پیشِ نظر۔۔نیّر عامر

سرکاری ہسپتال کے زچگی وارڈ سے متصل نرسری کا اندرونی منظر ہے۔ اپنی مخصوص چرچراہٹ کے ساتھ دروازہ کھلتا ہے۔ اس آواز کے ساتھ ہی فرش پر ادھر ادھر آوارہ پھرتے چھوٹے چھوٹے چوہے، کونے کھدروں میں بنی، اپنی پناہ←  مزید پڑھیے

بسم اللہ اولہ وآخرہ ۔۔۔ معاذ بن محمود

دروازہ کھلتے ہوئے ہلکی سی احتجاجی آواز نکالتا جس کا گلا گھونٹنے کے لیے ٹی وی کی آواز ضروری تھی۔ وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ چپل اتار کر ہاتھ میں تھامی اور خاموشی سے کوریڈور میں بڑھتا چلا گیا۔ کوریڈور ختم ہونے پر ٹی وی لاؤنج واقع تھا۔ قریب چار فٹ دور ہی سے وہ جھک گیا اور دبے قدموں چلتا ہوا بائیں ہاتھ پر واقع کمرے میں چلا گیا۔←  مزید پڑھیے

فریبِ اختیار۔۔عنبر عابر

میں اپنے بیٹے کے بغلوں میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے پیروں پر چلا رہا ہوں۔یہ اس کیلئے ایک نیا تجربہ ہے۔وہ چلتے ہوئے بار بار سر جھکا کر اپنے پیروں کی طرف دیکھنے لگتا ہے۔شاید وہ اس نئے تجربے←  مزید پڑھیے

رات کی رانی۔۔فیصل فارانی

ہجر کے اندھیرے میں چشمِ تر کے گھیرے میں یاد کے سبھی جگنو ٹمٹماتے رہتے ہیں آنکھ میں کئی لمحے جگمگاتے رہتے ہیں رات یوں مہکتی ہے جیسے رات کی رانی چاندنی میں اِٹھلائے شبنمی سی ٹھنڈک کو خوشبوؤں میں←  مزید پڑھیے