سیدہ رابعہ کا تعلق فیصل آباد سے ہے، آپ کی لکھی ہوئی دل دہلا دینے والی داستان ”بیڑی اور بنیان” میں راجو اور اس کے بدقسمت شوہر اصغر کی ہنگامہ خیز کہانی کے ذریعے غربت اور کشمکش کی تلخ حقیقتوں← مزید پڑھیے
اسی طرح کرشن چندر’’ لفظوں‘‘ کی اہمیت کے توسط سے بھی گاؤں اور شہر کا موازنہ کرتے ہیں کہ شہر میں اگرچہ لفظوں کی ریل پھیل زیادہ ہوتی ہے، لفظوں کا تبادلہ اور مختلف انواع و اقسام کے الفاظ ملتے← مزید پڑھیے
کرشن چندر کا ناول ’’دوسری برف باری سے پہلے‘‘ ایک شاہکار ہے۔ یہ ناول پہلی مرتبہ ۱۹۶۷ء میں بمبئی سے ماہنامہ ’’شاعر‘‘ میں ’’تازہ و غیرمطبوعہ‘‘ کی سرخی کے ساتھ شائع ہوا ۔ پھر پاکستان میں پہلی مرتبہ بُک کارنر،جہلم← مزید پڑھیے
انیسویں صدی کے صنعتی انقلاب ، مغربی دنیا کے عروج اور نو آبادیاتی نظام نے مشرقی دنیا کے اہل ِ علم و قلم کو خیالی اور تصوراتی دنیا سے نکال کر حقیقت دیکھنے کی آنکھیں عطا کیں۔ نو آبادیاتی نظام← مزید پڑھیے
جو گیارہ اہم اور منفرد چیزیں میں نے اس کتاب سے اخذ کی ہیں انہیں بنا کسی تمہید کے یہاں ذکر کردینا سب سے زیادہ مناسب ہے کیونکہ باقی کتب بین فرد خود سمجھ لے گا کہ “پنجیری” با معنی← مزید پڑھیے
بحیثیت افسانہ نگار ْممتاز حسینٌ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ جھنگ میں پیدا ہوۓ،اپنی راہیں خود بنانے کی تگ ودو میں نیویارک میں مستقل قیام کیا۔بحیثیت مصور، ڈرامہ نگار، شاعر، افسانہ نگار،اور فلمساز نام کمایا مگر جھنگ کی← مزید پڑھیے
رامو کی بات سن کر گدھا اگرچہ خود بھوکا تھا لیکن اس نے کہا کہ رامو ٹھیک کہتا ہے۔ وہ میری طرح کوئی گدھا تو نہیں کہ اس کی خواہشات نہیں ہوں گی،پیٹ کے علاوہ اور بھی بھوک ہیں۔ اچھے← مزید پڑھیے
’’ایک گدھے کی سرگزشت‘‘ کرشن چندر کا طنزیہ و مزاحیہ ناول ہے۔ اس ناول میں انھوں نے طنز و مزاح کےلبادے میں معاشرتی، سیاسی اور نفسیاتی حقائق کو بے نقاب کیا ہیں۔ اس ناول کا مرکزی کردار ایک گدھا ہے← مزید پڑھیے
اس رنگارنگ دنیا میں زندگی اور کہانیوں کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔ محبت ، جدائی ، طبقاتی تفریق، معاشرتی استحصال، نفسیاتی گرہیں، زبان بندی، روح اور جسم کے بندھن کو برقرار رکھنے کی اذیت، اخلاقی قدروں کا زوال، نام← مزید پڑھیے
یہ ایک استعاراتی افسانہ ہے، فنکار خارج سے زیادہ آدمی کی باطنی خباثتوں پر نگاہ رکھتا ہے،ہزاروں برس سے تشکیل پذیر تہذیب و ثقافت آدمی کے جبلتی نظام میں موجود وحشیانے پن پرقابو پانے کی کوشش کرتی رہی ہے لیکن← مزید پڑھیے
ہالینڈ کے قصبے میں 1876 کو پیدا ہونے والی مارگریٹا کی چھٹی سالگرہ پر جب اس کے باپ نے بکریوں کی مدد سے کھینچے جانے والی بگھی تحفے کے طور پر دی تو محلے کی سن رسیدہ عورتوں نے ماتھے← مزید پڑھیے
میرے بچپن کے دنوں میں راولاکوٹ شہر ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ایاز مارکیٹ کی جگہ ہرے بھرے کھیت تھے۔ان کھیتوں سے ایک راستہ گزرتا تھا۔ جس کے بائیں طرف میرے نانا کا مکان تھا۔نیشنل بنک، الریاض ہوٹل اورایکسچینج کی عمارتیں← مزید پڑھیے
کرش چندر کے ناول سماج میں عورت کے مقام اور حیثیت کے حوالے سے شعور عطا کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے ناولوں میں ایسی عورت کا روپ پیش کیا جو سماج کا ستایا ، روندھا اورکچلا ہواہے۔ اس پر سماج← مزید پڑھیے
شیکھا سب کی جانب سے خود کو سراہے جانے کی خواہش مند ہے اس کے ساتھ ساتھ اپنے چاہنے والوں کے علاوہ دوسروں کے طلب گاروں کو بھی اپنی ذات میں محو دیکھنا چاہتی ہے۔ وہ ایک بیوی کی طرح← مزید پڑھیے
ناول انسانی زندگی کا ایک ایسا مرقع ہوتا ہے جس میں ہر باشعور کو اپنی زندگی کا کوئی نہ کوئی گوشہ نظر آتا ہے۔ ناول میں اگرچہ واقعات اور کردار فرضی پیش کیے جاتے ہیں لیکن یہ زندگی کے اتنے← مزید پڑھیے
ناول کی دنیا میں ایک اصطلاح “ماحولیاتی مطالعہ” Environmental Literature بھی ہے، اس ماحولیاتی مطالعے کا مآخذ ایک اور حیاتیاتی اصطلاح “ایکولوجی” Ecology ہے، جو انیسویں صدی کے آخر میں حیاتیات کی ایک سائنسی شاخ کے طور پر نمودار ہوئی،← مزید پڑھیے
ادب اور نفسیات ایک دوسرےسےمختلف علم ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق رکھتےہیں۔ادب انسان اور انسانی زندگی کے اُتھارچڑھاؤ سے عبارت ہے جبکہ نفسیات انسان کے کردار،رُوح اور ذہن کا مطالعہ ماحول اور سماج کے تناظر میں← مزید پڑھیے
الف اللہ چنبے دی بوٹی ……“ کو سکول کے زمانے میں پڑھ کر چنبے کی بیل کا تصور ذہن میں ابھرتا تھا۔ اب اس کی خوشبو کا احساس بھی ہو نے لگتا ہے۔ سکول کے زمانے سے اب تک سمجھ← مزید پڑھیے
وہ صدر میں کتابوں کے لگے اتوار بازار سے ایک اسٹال پر امبیدکر کی تصویر والے سر ورق کے ساتھ کتاب کو دیکھ کر اتنا پُرجوش ہوا کہ کتاب کا نام دیکھنا بھول گیا، اس نے نہ مصنف کا نام← مزید پڑھیے
دل میں نفرت لبوں پہ نفرت ہے نفرتوں سے مجھے محبت ہے دل ترستا ہے شورِ دریا کو بارشوں کی بڑی ضرورت ہے خامُشی تیری صورِ اسرافیل بعد ازاں گفتگو قیامت ہے دہر کے سب سیاہ رُو تاثیر تجھ کو← مزید پڑھیے