Syed Mohammad Zahid
Dr Syed Mohammad Zahid is an Urdu columnist, blogger, and fiction writer. Most of his work focuses on current issues, the politics of religion, sex, and power.
He is a practicing medical doctor.
بہادر خاتون کو کُھل کر ہنستے دیکھا۔ پوچھا، ’’سنا ہے کہ ہر ہنسی کے پیچھے کچھ غم چھپا ہوتا ہے۔ آپ نے کبھی وہ راز نہیں کھولا۔‘‘ طنز یا کنایہ بازی تو حد ِادب سے آگے ہے، ہاں رمز و← مزید پڑھیے
ہزار سال کی زندگی میں بہت سے موڑ آتے ہیں، بہت سی کہانیاں بنتی ہیں۔ مشکلات ہوتی ہیں، کامیابیاں ملتی ہیں جنہیں سمیٹ کر ہی اتنی لمبی زندگی پائی جاسکتی ہے۔ وہاں سب کچھ تھا۔ بہت سے متاثر کن واقعات۔← مزید پڑھیے
آکسفورڈ پہنچے تو سمر قند و بخارا بہت یاد آئے۔ یونیورسٹی کے صدیوں پرانے کالجوں میں نوجوان دمکتے چہروں کو دیکھا تو ریگستان سکوائر کے ویران مدارس آنکھوں میں گھومنا شروع ہو گئے۔ ان کالجوں میں موجود خوبصورت چیپل دیکھے← مزید پڑھیے
میں تمام دنیا اور کیفیات سے خالی الذہن ہو کر بنچ پر بیٹھی اِدھر اُدھر دیکھ رہی ہوں۔ ریل کی پٹڑیوں کی چمک کے ساتھ ساتھ دوڑتی ہوئی نگاہیں دور کہیں اندھیرے میں کھو جاتی ہیں تو پھر مڑ کر← مزید پڑھیے
علم کے سمندر آکسفورڈ کو چھاننے کا دوسرا دن تھا۔ سن رکھا تھا کہ اس کی گہرائیوں میں بہت سے گوہر ہائے گراں مایا پنہاں ہیں۔ پہلا دن نئے آنے والے طلبا و طالبات کا استقبالیہ میلہ ’فریشرز ویک‘ دیکھتے← مزید پڑھیے
حزیمت اب یہ بھی اٹھانا پڑے گی در صنم پہ گردن جھکانا پڑے گی سوے دیر دیکھو اجالا بہت ہے اہل حرم، یہ خفت مٹانا پڑے گی اندھیرے مٹا نہ سکا نور خورشید شمع اک نئی اب جلانا پڑے گی← مزید پڑھیے
ناچ تیز ہوتا جا رہا تھا۔ پوہ کی بھیگی رات دم آخریں پر پہنچ چکی تھی۔ ستاروں کے قافلے چلتے چلتے تھک گئے تھے اور ڈوبنے سے پہلے بادلوں کی ردا اوڑھ کر مدھم ہو رہے تھے۔ جوانی کا الاؤ← مزید پڑھیے
ہماری نسل نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی طاقتور کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے۔ پچھلی نصف صدی میں دنیا کے طاقتور ترین آمروں کو زبردست عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ فاشسٹ جماعتوں اور← مزید پڑھیے
پاکستان کی عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ عوام الناس کی نظر میں اپنا وقار، عزت اور حیثیت کھو رہی ہیں۔ وہ اس مقام تک 75 سال کی ‘عرق ریزی و جاں فشانی’ سے پہنچی ہیں۔ دائیں بازو کے مذہبی سیاسی لیڈر ہوں← مزید پڑھیے
مقبولیت کا مزیدارمیٹھا زہر انسان کو مغرور بنا دیتا ہے۔ موافق ہواؤں میں ابھرنے والے عوامی سیلاب کے تند و تیز دھارے کس کس کوملیا میٹ کر دیتے ہیں, مغرور انسان کو ان کی پروا بھی نہیں ہوتی۔ اس سیلابِ← مزید پڑھیے
میں جانتا تھا کہ اس نے جو پوسٹ لگائی اس کا مخاطب میں ہوں۔ وہ میری دیوانی تھی اور مجھ سے منسوب بھی لیکن کئی سال کی ہمرکابی کے باوجود میں اس کے دل میں مستور راز جاننے میں ناکام← مزید پڑھیے
سوال پوچھا گیا تھاکہ ”شوہر کی ایکسپائیری عمر کیا ہے جس کے بعد بیوی دوسری شادی کاسوچے؟“ فیمینزم کی تحاریک کے آگے بڑھنے کے ساتھ ہی مرد کو اس جیسے کئی سوالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سوال← مزید پڑھیے
رشنو یمنا کنارے شُکری کے مقام پر پیدا ہوئی۔ اس کا پِتا دیوتاؤں کی دھرتی کا سب سے بڑا راجہ تھا۔ اس کی رحم دلی، انسان دوستی اور عدل کی کہا نیاں دوردور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ دیوتاؤں کی دھرتی← مزید پڑھیے
پی ٹی آئی اور پرویز الہیٰ پنجاب اسمبلی میں اپنی واضح شکست دیکھتے ہوئے پانچ دن کا وقت مانگنے سپریم کورٹ گئے۔ روباہ سیاست سمجھتا تھا کہ پانچ دنوں کے بعد بھی حالات نے حسب مقصود کوئی کروٹ نہیں لینی← مزید پڑھیے
پچھلے ہفتے امریکی سپریم کورٹ کے ابارشن قوانین پر دیے گئے فیصلہ کے خلاف پورے ملک میں خواتین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔ اسی سسلسلے میں معروف امریکی میگزین The Atlantic پر لکھنے والی سپورٹس جرنلسٹ← مزید پڑھیے
اس دشت الفت میں جنوں کے رنگ بھرے شباب دیکھے۔ مدھ بھری آنکھوں میں ڈوبتے ابھرتے خواب دیکھے۔ بے برگ و ثمر چاہتوں کے سراب دیکھے۔ مخملی پیکر رعنائیاں جن کی ریشمی پوشاک کو شرمسار کریں ناگ منی منہ میں← مزید پڑھیے
ابارشن کے مسئلے پر 1973 میں سپریم کورٹ نے Roe v Wade کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ امریکی آئین کی چودھویں ترمیم میں دیے گئے رازداری کے بنیادی حق کی وجہ سے حاملہ خواتین کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اسقاط حمل کروانے یا نہ کروانے میں آزاد ہیں← مزید پڑھیے
ریحانہ نے اپنے ماسک کو سیدھا کیا۔ پھولدار سکارف کی گرہ کو مضبوطی سے باندھا، عبایہ پہنا اور چل پڑی۔ باہر گھپ اندھیرا تھا۔ پورا ملک کئی دنوں سے دھند کی لپیٹ میں تھا۔ بجلی کی فراہمی میں تعطل معمول← مزید پڑھیے
تمام انواع کی طرح انسان بھی دو صنفوں کی صورت میں پیدا کیا گیا۔ یہ زوجین دوسرے جانداروں کی طرح ایک دوسرے کی جانب طبعی میلان رکھتی ہیں۔ حیوانوں میں یہ میلان صرف بقائے نوع کے لیے ہوتا ہے۔ اس← مزید پڑھیے
سلیم ہوٹل کی لابی میں بیٹھا اس کا انتظار کررہا تھا۔ دو گھنٹے گزر چکے تھے۔ ایک پل کے لیے بھی اس کی نگاہیں مرکزی دروازے سے نہیں ہٹی تھیں۔ سگریٹ پر سگریٹ پھونکے جا رہا تھا۔ جوں جوں وقت← مزید پڑھیے