شکور پٹھان کی تحاریر
شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

گر تو بُر ا نہ مانے/جن سے منصفی چاہیں۔۔۔۔۔شکور پٹھان

میں اور آپ مزے سے زندگی گزارتے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ زندگی کی بساط پر لوڈو کھیل رہے ہوتے ہیں، دانے پھینکتے ہیں اور گوٹیں آگے پیچھے بڑھاتے ہیں کہ کہیں کوئی نزاعی کیفیت آ پڑتی ہے۔ کھیل کے←  مزید پڑھیے

میں بھی کبھو کسُو کا سرِ پُر غرور تھا۔۔۔شکور پٹھان

وَالْعَصْرِ (1) إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ قسم ہے زمانے کی۔۔یقیناً انسان خسارے میں ہے ربِّ کائنات نے اپنی بات پر گواہ بنایا تو سب سے زیادہ معتبر چیز کو۔ بھلا وقت سے زیادہ کون گواہ ہوگا، انسان کے عروج و←  مزید پڑھیے

جانے کس منزل کی جانب آج کل جاتے ہیں لوگ۔۔۔شکور پٹھان

ٹھیک سے یاد نہیں کہ میں چوتھی جماعت میں تھا یا پانچویں میں۔ ہمارے گھر میں ریڈیو نہیں تھا۔ اور ہمارے ہی کیا گلی بھر میں بھی صرف ایک ہی گھر میں ٹرانسسٹر ریڈیو تھا۔ اور ریڈیو کے لیے کونسا←  مزید پڑھیے

فرشتوں کا لکھا۔۔۔۔شکور پٹھان

میری بس فریر روڈ پر لڑکیوں کے  کالج کے سامنے کھڑی تھی۔ سامنے کالج کی دیوا پر لکھا ہوا تھا۔۔۔۔ معاف کیجیے۔۔وہاں تو بہت کچھ لکھا ہوا تھا البتہ کچھ نئے الفاظ تھے جو  سپرے مشین سے لکھے گئے تھے۔←  مزید پڑھیے

مسکرائیے ! آپ شارجہ میں ہیں۔۔۔۔شکور پٹھان

چراغ تلے اندھیرا۔۔۔گھر کی مرغی دال برابر۔۔۔بچہ بغل میں ڈھنڈورا شہر میں۔۔ سمندر کنارے نئی تعمیر شدہ مسجد سے نکل کر شاید میں نے پہلی بار شارجہ کو دیکھا جہاں میں پچھلے پچیس سال سے رہتا چلا آیا ہوں اور←  مزید پڑھیے

بلبل ہند۔۔۔شکور پٹھان

مجھے نجانے کس حکیم نے لکھنے کا مشورہ دیا تھا اور اگر لکھنے کا ایسا ہی ہو کا تھا تو اپنی اوقات میں رہ کر لکھتا۔کچھ دوستوں کا یہ بھی خیال ہے کہ بھلا ایسے لوگوں کے بارے میں لکھنے←  مزید پڑھیے

ابو چاچا۔۔۔شکور پٹھان

یہ زندگی، یہ دنیا، اپنے بھید بھاؤ کچھ عجب ہی انداز میں کھولتی ہے۔ انسان جاننا کچھ چاہتا ہے، گیان کسی اور ہی چیز کا ملتا ہے، کرنا کچھ چاہتا ہے ، ہو کچھ اور جاتا ہے۔ آگ لینے جاتا←  مزید پڑھیے

چھوٹی۔۔۔شکور پٹھان

ابوووو۔!!؟؟ چھوٹی مسکرا رہی تھی لیکن آنکھوں میں شکایت، ملامت اور شرارت سبھی کچھ تھا۔جیسے کہہ رہی ہو ابو آپ بھی؟ ابو کو اس نے بہت اونچے استھان پر بٹھا رکھا تھا اور ابو کے منہ سے اتنی چھوٹی، اتنی←  مزید پڑھیے

یہ میرا چمن ہے میرا چمن۔۔۔۔۔شکور پٹھان

خالد کے کمرے میں یہ خوش باش، ہنستے مسکراتے روشن چہرے والے لڑکے فرش پر سر جوڑے بیٹھے باآواز بلند گا رہے ہیں۔ یہ کسی ترانے کی ریہرسل ہے۔ ان سب کی ہم آہنگی کمال کی ہے اور کیوں نہ←  مزید پڑھیے

بوجھ۔۔۔۔شکور پٹھان

بوجھ؟ یا میرے مولا! یہ کیا ماجرا ہے۔ آج کے دن کے لئے تو مہینوں سے ہنگامہ بپا تھا۔ اماں ہفتوں بولائی بولائی پھر رہی تھیں۔ خدا خدا کرکے خیر سے اچھی جگہ نسبت طے ہوئی۔ مناسب مہلت بھی ملی←  مزید پڑھیے

یہ جہاں والے/ہیلو فرینڈز۔۔۔شکور پٹھان

پیلی ٹی شرٹ اور جینز میں ملبوس یہ لڑکی شاید سترہ یا اٹھارہ برس کی ہو لیکن قریب سے دیکھنے پر یہ صرف 13،14 سال کی نظر آتی ہے یعنی میری نواسی سے چار سال بڑی۔ اس کے چہرے پر←  مزید پڑھیے

شاہی سواری۔۔۔۔شکور پٹھان

خوبصورت سے بازار میں زیادہ تر پھلوں اور سبزیوں کی دکانیں تھیں اور سارے پھل اور سبزیاں بے حد خوشنما۔ ساتھ ہی قہوہ خانے اور چھوٹی چھوٹی دکانیں تھیں جن میں نوادرات اور مقامی دستکاریاں اور سجاوٹ کے سامان کے←  مزید پڑھیے

دیواروں سے باتیں کرنا۔۔۔شکور پٹھان

گڈو کے ہونٹ لٹکے ہوئے اور آنکھوں میں یہ موٹے موٹے آنسو تھے لیکن دادی ماں کے چہرے کی سختی میں ذرا بھی کمی نہ ہوتی تھی۔ گڈو غریب کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ دودن پہلے جو کام وہ←  مزید پڑھیے

عوامی قلمکار،ابن صفی۔۔ابراہیم جلیس/شکور پٹھان

مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں وقلیلا”ماتشکرون۔۔۔۔۔۔اور تم بہت ہی کم شکر کرتے ہو! یہ شکوۂ ایام نہیں،میرے مولا و مالک کا شکر ہے۔ آج جب دنیا جہان کی ساری نعمتیں صرف ایک خواہش کی دوری پر ہیں←  مزید پڑھیے

پویلئین اینڈ سے۔۔۔ایک سفر، اونچے نیچے راستوں کا/شکور پٹھان

اونچے نیچے راستوں کے اس سفر کے اگلے پڑاؤ کی باتیں کرتے ہوئے حلق میں کچھ پھنسنے لگتا ہے، زبان گنگ، ذہن ماؤف اور قلم زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ یہ ہماری قومی تاریخ کا منحوس ترین سال تھا ۔ انتخابات←  مزید پڑھیے

اِتِّی ذرا سی محبت۔۔۔۔شکور پٹھان

یہ گاؤں نہیں تھا لیکن گاؤں ہی لگتا تھا۔۔۔۔۔ یہ شہر کاحصہ تھا لیکن ماحول پر دیہاتی رنگ غالب تھا۔ یا شاید ہمیں یوں ہی لگتا تھا۔ ہم اس سے پہلے بہارکالوںی جیسی گنجان آبادی میں رہتے تھے۔ جہاں دومنزلہ←  مزید پڑھیے

ہوئے تم دوست جس کے۔۔۔شکور پٹھان

ایک وقت تھا کہ میں سگریٹ نوشی کیا کرتا تھا اور بہت کیا کرتا تھا۔ لیکن کبھی سمجھ میں نہ آئی کہ کیوں کرتا تھا۔ سو کر اٹھتا تو سگریٹ جلا لیتا کہ اس سے نیند بھاگتی ہے اور آنکھیں←  مزید پڑھیے

الٹے قدموں کا سفر۔۔۔شکور پٹھان

جانے کیوں ایسا لگتاہے  کہ یاروں کا جی میری باتوں سے اوب گیا ہے۔ ایک سے قصے بار بار سناتا ہوں۔ دنیا آگے کی جانب دیکھ رہی ہے اور میں گئے دنوں کے قصے ہی سناتا رہتا ہوں۔ لوگوں کی←  مزید پڑھیے

گوونچو صائبا۔۔۔۔شکور پٹھان

اوہ! واقعی؟ ہاں یار، بالکل سچ!! ہم دونوں نے اپنے اپنے کپ میز پر رکھے اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہم یوں لپٹ گئے جیسے دو بچھڑے بھائی برسوں کے بعد ملے ہوں۔ یہ ‘ برونو” تھا۔ برونو مائیکل۔ ہم دونوں←  مزید پڑھیے

مقامے فیض ۔۔۔۔شکور پٹھان

تالیوں کی گونج میں پردہ گرا دیا گیا۔ ڈرامہ ختم ہوا  اور حاضرین کمر سیدھی کرنے کھڑے ہوگئے۔ کچھ اٹھ کر باہر سگریٹ پینے چلے گئے۔ ” اب آپ مرزا ببن بیگ سے ایک غزل سنیں گے” اسٹیج کے پیچھے←  مزید پڑھیے