وہ چھت اس کی تھی۔ یعنی وہ اس چھت کا بلا شرکت غیرے مالک تھا۔ وہ اس چھت کا کرایہ دیتا تھا۔ یا شاید نہیں ، وہ اس کمرے کا کرایہ دیتا تھا جو چھت پر تھی اور وہ اس← مزید پڑھیے
وہ بہت دیر سے بس اسٹاپ پر کھڑا تھا۔ لوگوں کی تعداد بھی اب بڑھتی جارہی تھی۔ بسوں میں سوار ہونے والے کم تھے، انتظار کرنے والے زیادہ۔ صبح کا وقت تھا، ساری بسیں بھری ہوئی آرہی تھیں۔ نیلے رنگ← مزید پڑھیے
“ تو ہوا یہ کہ ایک جگہ کہار کہیں لڑکھڑا گئے اور ڈولی نے جھول کھایا۔ نواب بیگم کی گود سے سال بھر کا بچہ نیچے گر کر سڑک پر جاگرا۔ کہاروں کو کچھ خبر نہ تھی۔ اس اللہ کی← مزید پڑھیے
بھائی غفار کے کباب ایک ذرا بڑی عیاشی تھے۔ اس سے کم پیسے یعنی چار آنے جب میسر آجاتے جو کہ اکثر آجاتے تو ہم بہادر آباد پہنچ جاتے جہاں کے آلو چھولے، دہی بڑے، چاٹ وغیرہ ہمارے منتظر ہوتے۔← مزید پڑھیے
زندگی عجیب و غریب رنگوں میں رنگی ہوئی ہے۔ ہر رنگ اپنی کہانی لیے ہوئے ہے اور ہر کہانی اپنے کئی رنگ چھوڑ جاتی ہے۔ زندگی طرح طرح سے بیتتی ہے۔ کچھ باتیں یاد رہ جاتی ہیں، کچھ بھول جاتی← مزید پڑھیے
زندگی، بلکہ یوں کہیے کہ انسان عجیب رنگ بدلتا رہتا ہے۔ ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں۔ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اگر کوشش کروں تو میں کچھ لکھ سکتا ہوں۔← مزید پڑھیے
“اے ہے اتنے سارے اٹھا لائے “ ایک جانی پہچانی آواز سن کر میں مڑا۔ یہ بھابی زرینہ تھیں ۔ ان کا بیٹا ڈبّو اور ایک اور بچہ دونوں ہاتھوں میں دو دو کدو لیے کھڑے تھے۔ سامنے سے عنایت← مزید پڑھیے
“ایک منٹ، ایک منٹ” کلیم نے پٹرول بھرنے والے کو آواز دی جو پٹرول کے پائپ کو اپنی جگہ رکھنے جارہا تھا۔ “ جی” سرخ وردی میں ملبوس پٹرول پمپ کے کارندے نے سوالیہ انداز میں کلیم کی طرف دیکھا۔← مزید پڑھیے
وہ نوکری جس کا ملنا پاکستان میں پہاڑ سر کرنے کے برابر نظر آتا تھا ، یہاں یوں چٹکی بجاتے مل گئی۔ اس طرف سے تو فکر دور ہوئی۔ سچ تو یہ ہے کہ میں یہاں کچھ ایسا مگن ہوگیا← مزید پڑھیے
چلیے صاحب زندگی کسی ٹھکانے تو لگی۔ کسی ڈھب پر تو آئی۔ یہاں پاکستان جیسی مادر پدر آزادی تو نہیں تھی۔ صبح آٹھ بجے کا مطلب تھا سچ مچ کے آٹھ بجے۔ اپنے یہاں تو ایسی “ چھوٹی موٹی” باتوں← مزید پڑھیے
آگے کی کہانی بیان کرنے سے پہلے کچھ صفائیاں اور وضاحتیں ضروری ہیں۔ یار لوگ میری یادداشت کی بہت تعریف کرتے ہیں اور سچ کہوں تو اتنی غلط بھی نہیں کرتے۔ میں اپنے بارے میں کبھی کسی خوش فہمی اورخوش← مزید پڑھیے
پچھلے دو دن سے بحرین میں نے صرف رات میں دیکھا تھا۔ آج جمعہ تھا ۔ آج چچا کے ساتھ ذرا ڈٹ کر ناشتہ کیا۔مراد یہ کہ کچھ وکھری ٹائپ کا ناشتہ کیا۔ کراچی میں تو ہمارا تقریباً ہرروز ایک← مزید پڑھیے
“ تم بس دن بھر آرام کیا کرو اور شام کو فلم دیکھنے چلے جایا کرو” چچا نے کہا۔ اور میں نے یہی کیا۔ ایک سعادتمند بھتیجے کی طرح چچا کی بات پر پوری طرح سے عمل کیا۔ سارا دن← مزید پڑھیے
دسمبر کے بالکل آخری دنوں کی ایک چمکیلی صبح تھی جب گلف ائیر کے بوئنگ 727 نے بحرین کی زمین چھوئی۔ ائیرپورٹ کی خوبصورت اور جدید عمارت کے پاس جہاز سرنگ لگنے کا منتظر تھا۔ آس پاس کچھ اور بھی← مزید پڑھیے
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا شہر کی بربادی کے ذمہ دار وہ نہیں جنہوں نے اس شہر کو لوٹا یا وہ جن کی نالائقی اور نااہلی کے سبب شہر اس حال← مزید پڑھیے
“ابے یار تم لوگ الگ ہی لگتے ہو” وہ بڑی دلچسپی سے سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ “ کیا مطلب؟ کیسے الگ لگتے ہیں؟” میں نے کچھ کچھ سمجھتے ہوئے بھی پوچھ لیا۔ “ تم لوگ سالے ایک دم چِکنے← مزید پڑھیے
شیکسپئر کہتا ہے۔۔ویسے زیادہ تر شیکسپئر ہی کہتا ہے۔ جو کچھ کوئی اور نہیں کہتا وہ شیکسپئر ہی کہتا ہے۔ کسی کی بات اگر کوئی نہیں سنتا تو وہ اسے شیکسپئر کے منہ سےکہلوا دیتا ہے پھر ہر کوئی اس← مزید پڑھیے
“ یہ مچھر دانی کہاں لئے جارہے ہو” امی نے حیرت پوچھا۔ “ باہر چارپائی پر لگاؤں گا” “ اتنی اچھی ہوا چل رہی ہے، مچھر کہاں ہیں “ “ اسی لیے تو لے جارہا ہوں۔ ہوا سے ٹھنڈ لگتی← مزید پڑھیے
ـــــــــــــــــــــوہ دونوں سب سے نچلی سیڑھی پر بیٹھی تھیں ۔ مجھے قریب سے گزرتا دیکھ کر ذرا سا ترچھا ہوگئیں لیکن اپنی باتوں میں مگن رہیں۔ پتہ ہے؟ پہلی والی نے تھوک نگلتے ہوئے بڑے معتبر انہ انداز میں دوسری← مزید پڑھیے
“فلم دیکھی رات کو؟” “ ہاں تھوڑی سی دیکھی، پر سمجھ نہیں آئی” “ کیا سمجھ نہیں آیا” “ ویسے تو پوری فلم سمجھ نہیں آئی لیکن اس سے پہلے بھی دو تین ہندی فلموں میں دیکھا کہ بارش ہوتے← مزید پڑھیے