شاہین کمال کی تحاریر

تکمیل(افسانچہ)۔۔شاہین کمال

میرے میاں بڑے جانے مانے انٹلکچول ہیں۔ ایک دنیا ان کی گرویدہ و شیدا، خاص کر خواتین میں تو وہ بے حد مقبول و پسندیدہ ۔ ہمارے تین بچے ہیں اور میں سر تا پا گھریلو ذمہ داریوں میں غرق۔←  مزید پڑھیے

لہو پکارے گا آستیں کا۔۔شاہین کمال

افوہ !  آج بہت دیر ہوگئی ہے۔ کبیر نے جلدی جلدی اپنی بد رنگی شرٹ کا بٹن بند کرتے ہوئے کہا۔ کوئی بات نہیں پہلے ناشتہ تو کر لو۔ میں نے رات کی باسی روٹی کو پانی سے نم کر←  مزید پڑھیے

دیوار گریہ۔۔شاہین کمال

میں کیا سناؤں؟ میرا سینہ، سینہ بریاں ہے۔ شاید میں یاست پسند ہوں۔ مجھے غمگین کہانیاں ہی یاد رہتی ہیں کیوں کہ خوشیاں لمحاتی اور غم دائمی ہوتے ہیں۔ اب تو کل یگ ہی ہے ۔ چلو میں تمہیں اس←  مزید پڑھیے

افسانہ/تنہائی یکجائی(2،آخری حصّہ)۔۔شاہین کمال

جیڈ کو میرے پاس اب سال سے اوپر ہو چلا تھا۔ جولائی کے مہینے کی بات ہے یونیورسٹی میں گرمیوں کی تعطیلات تھیں ۔میں اپنے کپڑے استری کر رہا تھا اور جیڈ مسلسل باوجود میرے منع کرنے کے استری کی←  مزید پڑھیے

افسانہ/تنہائی یکجائی(1)۔۔شاہین کمال

میرا نام عبدل سمیع ہے۔ میری زندگی نہ پوچھیے، گویا تنہائی کی تصویر و تفسیر تھی ،مجھے لوگوں سے بہت گھبراہٹ ہوتی تھی ۔ نہیں نہیں میں آدم بےزار نہیں! پر جانے کیوں دوسرے لوگوں سے connect نہیں کر پاتا←  مزید پڑھیے

عمر رفتہ کی ایک یاد دل گداز/ماسٹر نذیز۔۔شاہین کمال

محمد پور میں بھلا ماسٹر نذیر کو کون نہیں جانتا تھا۔ وضع دار، خوش اخلاق، دبلے پتلے سرو قد،گندمی رنگت والے ماسٹر نذیر ۔ اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے لٹھے کا خالتہ پائجامہ اور کالی دھاری دھار شیروانی،←  مزید پڑھیے

قائدآباد کی قمر سلطانہ۔۔شاہین کمال

گھر میں ہفتے بھر سے مرگ جیسی خاموشی طاری ہے۔ جیسے یہاں کوئی ذی نفس نہیں بستا بلکہ سرگوشیاں کرتے گھٹتے بڑھتے سائے ایک دوسرے پر گِرے جاتے ہیں۔ اب سب اتنے خوش نصیب بھی کب کہ مرگ ہی ہو←  مزید پڑھیے

پنکھ پکھیرو۔۔شاہین کمال

سفر کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں اور اطراف میں بہت جوش اور گہماگہمی۔ ماں نے مجھے انجانے دیس کی کئی کہانیاں سنائی ہیں ،اور میرا جی چاہتا ہے کہ میں جادوئی قالین پر بیٹھ کر پلک جھپکتے←  مزید پڑھیے

الاؤ(دوم،آخری حصّہ)۔۔شاہین کمال

جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ میں بہت سیانا کوا تھا۔ میں اپنے پی۔اے اور ڈرایور کو ہمشہ اپنی مٹھی میں رکھتا تھا۔ ان پر نوازشات کی بارش کر کے ان کی زبان اور ایمان کو اپنے پاس←  مزید پڑھیے

الاؤ(حصّہ اوّل)۔۔شاہین کمال

میری زندگی پر سکون دریا پر ہلکورے لیتی بادبانی کشتی کہ مانند تھی۔ اس کو تند و تیز لہروں کے حوالے میں نے خود کیا تھا اور سچ تو یہ ہے کہ میں خود ہی سراسر قصوروار ہوں۔جب آپ چیزوں←  مزید پڑھیے

مُنّی نہیں مانتی۔۔شاہین کمال

اللہ کسی کو اولادوں کی قطار میں بیچ کی اولاد نہ بنائے، انہیں نہ تو بڑی اولا جیسا مان سمان ملتا ہے اور نہ ہی چھوٹوں جیسا لاڈ دلار ، بس ذمہ داریوں کی جکڑ بندیاں ہی نصیب ہوتی ہیں۔←  مزید پڑھیے

سنائپر۔۔شاہین کمال

میرا دفتر سنڑل پارک کے پُرفضا مقام پر ہے۔ بیسویں منزل سے یہ بھاگتی دوڑتی دنیا اتنی فتنہ خیز نہیں لگتی اور اتفاق سے میری کیوبکل کی کھڑکی بھی پارک کی سمت کھلتی ہے۔ میں عموماً اپنا کافی کا پہلا←  مزید پڑھیے

کلیڈو سکوپ(2،آخری حصّہ)۔۔شاہین کمال

راگنی دو دن سے مختارے سلام کو نہیں آیا, کدھر ہے وہ؟ جرنیلی نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے تیکھے لہجے میں پوچھا؟ میں خبر لیتی ہوں میڈیم، کہیں دو دن کی لگاتار بارش میں بھیگ کر بیمار نہ ہو گیا←  مزید پڑھیے

کلیڈو سکوپ(1)۔۔شاہین کمال

آدم اپنی کامیابی کی میٹھائی لینے چورنگی تک گیا ہے اور میں آدم کا رزلٹ ہاتھوں میں تھامے ساکت بیٹھا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ آگے کیا ہونے والا ہے؟ مجھے اپنے آپ سے کیا گیا وعدہ بھی تو نبھانا←  مزید پڑھیے

فریبِ آرزو۔۔شاہین کمال

عمر کے اس آخری پڑاؤ میں اپنے شجر سایہ  دار تلے سانس لینا یقیناً نعمت خداوندی ہے کہ بےشک اولاد اللہ تعالیٰ کا بیش بہا تحفہ ہے اور اگر سعادت مند اولاد ہو تو کیا ہی کہنے ۔ زندگی کسی←  مزید پڑھیے

تھری ناٹ تھری(2،آخری حصّہ)۔۔شاہین کمال

8 اکتوبر 1970 میری پیاری۔ حیات کے اس گھور اندھیرے میں، میں تمہیں اور صرف تمہیں ہی سوچ رہا ہوں اور حیران ہوں کہ مقدر ہمارے ساتھ کیا کھیل کھیلنے والا ہے۔ اب جبکہ میں خوش گمان تھا کہ مجھے←  مزید پڑھیے

تھری ناٹ تھری(1)۔۔شاہین کمال

تیس سالوں کے بعد میں اپنی سسرال لوٹ آئی تھی۔ جو سچ کہوں تو میں تو اس واپسی کے  حق میں نہیں تھی کہ میں دیار غیر میں اپنے دونوں بیٹوں کے قریب رہنے کی آرزو مند۔ ماں ہونا بھی←  مزید پڑھیے

تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے(2،آخری حصّہ)۔۔شاہین کمال

پولیس مجھے تھانے لے جانے پر مُصر اور پرنسپل کا اصرار کہ  معاملہ یہیں  حل ہو جائے۔ وہیں آفس میں مجھے پتہ چلا کہ رشنا قادری کے چچا تھانہ سنٹرل کے ایس پی ہیں۔ جب تھانے دار نے ایس۔ پی←  مزید پڑھیے

تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے(1)۔۔شاہین کمال

سو سوری یوسف میری آنکھیں ہی نہیں کھلیں۔ نمرہ نے جلدی جلدی اپنے بکھرے بالوں کو سمیٹ کر جوڑا بناتے ہوئے چولہے کا برنر آن کیا۔ رہنے دو نمرہ تم پریشان مت ہو میں نے انڈا ابال کر کھا لیا←  مزید پڑھیے

نقش سویدا۔۔شاہین کمال

میں اسکول ڈرائیو کرتے ہوئے روز اس کو چاندنی اسکوائر کے پاس دیکھتی تھی ۔ میں محتاط ڈرائیور ہوں اور ڈرائیونگ کے دوران دائیں بائیں دیکھنے سے حتی الوسع گریز کرتی ہوں پر جانے کیا بات تھی کہ وہاں پہنچتے←  مزید پڑھیے