ستیہ پال آنند کی تحاریر
ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

تتھا استو، رضینا با لقضا۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

رندہزارشیوہ را طاعت حق گراں بود لیک صنم بہ سجدہ در ناصیہ مشترک نخواست (غالبؔ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گھپ اندھیرا تھا شوالے میں ، مگر ٹھنڈی، ملائم روشنی کا ایک ہالہ دیوتا کی مورتی کو نور سے نہلا رہا تھا مورتی کے←  مزید پڑھیے

​دھوپ کا بالک اور میَں۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

گزشتہ برس دسمبر میں تحریر کردہ! سردی سخت تھی۔۔۔ سخت تھی سردی اور میں، ایک اکیلا، آنگن میں کرسی پر اکڑ وں بیٹھا اپنی ٹوٹی ٹانگ کا نوحہ دل ہی دل میں دہراتا یہ پوچھ رہا تھا “دھوپ کہاں ہے؟←  مزید پڑھیے

پہلا موّحد ۔۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند

میں نے پوچھا ۔ “کون ہے کمرے میں میرے؟ کون ہے جس نے کہا ، ابلیس تھا پہلا موّحد ۔۔۔؟” ایک کونے سے ذرا دھیمی سی اک آواز آئی “میں ہوں اک نا چیز ۔۔۔۔میرا نام ہے احمد غزالی ۰!”←  مزید پڑھیے

طفلِ سِن رسیدہ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

سو برس کا میں کب تھا، منشیِ وقت؟ کب نہیں تھے؟ ذرا بتاؤ تو تم یقیناً کہو گے، بچپن میں کھیلنے کودنے میں وقت کٹا جب شباب آیا تو ؟۔۔۔کہو، ہاں کہو کیا برومند، شیر مست ہوئے؟ کیا جفا کش←  مزید پڑھیے

وزیر آغا (مرحوم) سے بحثا بحثی کی ایک واردات۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

میں جب بھی لاہور جاتا، ڈاکٹر وزیر آغا کے دولت کدے پر ہی ٹھہرتا۔ اوپر والی منزل پر ایک طویل و عریض کمرہ اور غسل خانہ میری عارضی املاک تھے۔ شام تک تو احباب (جن میں ڈاکٹر انور سدید اور←  مزید پڑھیے

ارتھی ۔ رتھ بان۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ڈھیلی ڈھالی انگلییوں سے اپنے گھوڑوں کی لگامیں تھام کر اک سارتھی ٹھہرا ہوا ہے راستہ بھولا ہوا ہے دھول سے چہرہ اٹا ہے دھوپ کی ناقابلِ برداشت حدت خشک پیاسے ہونٹ آنکھوں میں کھلے سورج مکھی کے پھول (دو←  مزید پڑھیے

چھنگلی چھنگلی۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

پانچ سے ایک زائد، چھٹا پانڈؤوں کا وہ فاضل برادر، جسے چھوڑ آئے تھے لاشوں کے انبار میں جو کہ کُنتی کی نادیدنی نال سے منسلک تھا ابھی-1 سائے سا اُن کے پیچھے رواں ہے ۔۔۔چھٹا پانچ کا زائدہ چھنگلی←  مزید پڑھیے

اِ ک سوال کا جواب۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

سوال:آپ شاعر ہیں آپ اپنی تخلیقی صلاحیت کا سرچشمہ کہاں دیکھتے ہیں ؟ جواب: :سائنسی نقطہ نظر سے دیکھیں تو سے ابتدا کی جا سکتی ہے۔ میری ماں پنجابی میں اشلوک، دوہرے، دوہڑے، اور لوک شاعری کی دیگر اصناف میں←  مزید پڑھیے

اک پیِر حرف گیر۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اُٹھ کر جو گیا پیر ِ حرف ِ گیر جہاں سے خلقت نے کہا، آج خزانہ ہوا خالی الفاظ کی دولت جو لٹاتا تھا یہ بخشی اک اشرفی کیا، ادھی ، ادھیلی نہ رہے گی الفاظ کا اندوختہ، نظموں کا←  مزید پڑھیے

کیا شاعری کو’’ منزل من اللہ ‘‘مان لیا جائے ؟ یا یہ توقیفی نصاب ہے یا فنی ورزش کا نتیجہ ؟۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

جواب/آنـنـد: ’منزل مِن اللہ‘ ، ’توقیفی نصاب ‘ اور ’فنی ورزش‘ ان تین کلیدی اصطلاحات کے معانی سمجھنے کی کوشش کرنا میر ا فرض ہے۔(۱) منزل مِن اللہ تو شاعر کے الفاظ میں (شایدآتش)ؔ ؎ ہماری منزل اوّل جو تھی←  مزید پڑھیے

کیاجدید غزل کا تصور سمجھانے کے لئے نئے تصورات یا اصطلاحیں ایجاد کرنا پڑیں گی ؟۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

​پہلے تو ہمیں ’جدید‘ کے حوالے سے قدیم کو سمجھنا پڑے گا، یا ’قدیم‘ کے حوالے سے جدید کو سمجھنا پڑے گا۔ اگر جدید غزل ابھی تک اپنی پوری جسامت کے ساتھ معرض ِ وجود میں نہ آ سکی ہو←  مزید پڑھیے

دونظمیں ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

دوستو: میں غالب کے کلیدی اشعار کو یورپی اور امریکی جامعات میں مستعمل طریق کارVirtual Textual Analysis کی رو سے منظوم تشریح و تفسیر و دید بافی کے عمل سے گذار رہا ہوں۔ اب تک تیس نظمیں ہو چکی ہیں۔←  مزید پڑھیے

پچاس بر س پرانی ایک نظم/ساحل ِ بنگال پر(لایعنیت کی شاعری کا ایک نمونہ )۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ایک لڑکا سر کے بل ایسے کھڑاہے نرم گیلی ریت پر، جیسے اسے آکاش کی اونچائی میں پانی سمندر کی اتھاہ گہرائی میں آکاش ساحل پر جمے لوگوں کے جمگھٹ سب کو اُلٹا دیکھنا ہے۔ ایک چوزہ، سر کٹا ،←  مزید پڑھیے

​حال مست بے حال قلندر۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

” بہ نوک ِ خار می رقصم” کہا اس نے “بہ نوک خار می رقصم” بڑے اندوہگیں لہجے میں دہرایا کہا میں نے ۔۔۔”یہ نوک ِ خار آخر کون سے افلاک پر پاؤں میں چُبھتی ہے؟ “کہ اس کمر ے←  مزید پڑھیے

ایک دلچسپ واقعہ جو 1972 میں لندن میں پیش آیا۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

​لندن کے ان برسوں (1972-75)میں میرا تعلیمی ، تدریسی اور کسی حد تک ادبی لین دین اپنے ساتھی اسکالرز سے ہی رہا جو انگریزی کے حوالے سے تھا۔ اردو کے احباب سے کبھی کبھی ہی ملاقات ہوئی۔ اور وہ بھی←  مزید پڑھیے

قاری اساس تنقید (ایک مکالمہ)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

​Reader’s Response Criticism (A dialogue) قاری (۱) مصنف ہی اگر مر کھپ چکا * ہو چار صدیاں پیشترتو اس کے تحریری متن کو کیسے سمجھے گا وہ قاری جو”زماں” میں پانچ چھ  صدیاں “مکاں “میں پانچ چھ  سو میل دوری←  مزید پڑھیے

نوسترادامُس۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

(یہ نظم پہلے انگریزی میں لکھی گئی) کہا تھا اس نے کہ پیدائش و فنا دونوں رواں ہیں اپنے مداروں میں آفرینش سے مدار زیست ہے اک دائرے کا قرۃ العین فنا بھی اس کی ہی گردش میں ہے شریکِ←  مزید پڑھیے

مرے زائچے کے اجرام۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

یہ جنتری میرے روز و شب کی کہ جس کے برجوں میں زحل و مرّیخ و مشتری زائچے کے اجرام اپنا ڈیرہ جمائے بیٹھے ہیں ہر برس مجھ کو یہ بتاتے ہیں قرض کتنا ہنوز باقی ہے، پیر ِ دوراں←  مزید پڑھیے

تمہاری اور میری ایک ر یکھا تھی۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

(اکیس برس کی عمر میں لکھی گئی ایک نظم) ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ریکھا بیچ کی انگلی سے چلتی تھی زقندوں میں ہتھیلی کی جسامت پھاند کر میری کلائی تک پہنچتی تھی صعودی اوج کا کوئی ٹھکانہ اب کہاں ہو گا عجب←  مزید پڑھیے

“کتھا چار جنموں کی” میں سے ایک اقتباس/فراق گورکھپوری سے ایک ملاقات۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

پنجاب یونیورسٹی چنڈی گڑھ میں میرے رفقائے کار میں ڈاکٹر مسز نرمل مکرجی بھی تھیں، جو امریکہ کی کسی یونیورسٹی سے انگریزی کے ہندوستانی ناول نویس آر کے نارائینؔ پر ڈاکٹریٹ کر کے لوٹی تھیں۔ ان سے معلوم ہوا کہ←  مزید پڑھیے